شندور ہمارا ہے۔۔
تحریر: ظفر اقبال
کوہ غذر اور یاسن کے بلائی علاقوں کی سرحدیں چترال سے ملی ہوئی ہیں۔زمانہ قدیم سے لوگ ان سرحدوں کو عبور کر کے ان علاقوں میں اتے جاتے رہتے تھے۔جو راستے یاسن کو چترال سے ملاتے ہیں وہ درکوت پاس اور تھوئی موش بر پاس ہیں ۔ان دو راستوں میں مختصر ترین راستہ درکوت پاس ہے۔لیکن یہاں کے پشتنی باشندے صدیوں سے تھوئی پاس سے بھی ارپار ہوتے رہیں ہیں۔پرانے زمانے میں ان راستوں پر سے لوگوں کا گزر غالباً زیادہ ہوتی تھی۔اور اس دور کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ چترال اور یاسن کی اقوام کے درمیان شادی بیاہ کی رواج بہت زیادہ تھی۔خصوصا بلائی چترال کا علاقہ یارجون سے یاسن کے خونی رشتے صدیوں سے اباد ہیں۔اس وجہ سے ان اقوام کے ردمیان ایک نا ختم ہونے والا رشتہ موجود ہیں۔لیکن ذرائع امدرفت کی ترقی نے ان رشتوں میں خلل پیدا کی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاصلے بھی بڑھ گئے۔یہ فاصلے اس قدر بڑھ گئے کہ اج یہ نفرتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔اس کے پس پشت مختلف محرکات کار فرما ہیں۔جن میں سرفرست شندور کا علاقہ ہے۔جس کو بنیاد بنا کر دونوں اطراف کی پر امن عوام کو ایک دوسرے سے لڑیا جا رہا ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر اس تصفیہ طلب مسئلے کا حل ڈھونڈا جائے۔نہ کہ شندور میلے میں چترالی نوجوانوں سے ”شندور ہمارا ہے“ کے نعرے لگوا کر اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنائے۔ایسے جزباتی نعروں سے دوریاں مزید بڑھے گیں۔ماضی کا اگر جائرہ کیا جائے تو چترال صدیوں تک گلگت بلتستان کا ہی حصہ رہا ہے۔ریاست بروشال کی حدود کشمیر۔ کاشغر اور شمال میں تاجکستان چترال تک پھیلی ہوئیں تھیں۔ریاست بروشال کے انہدام کے بعد دردستان کی حدود بھی یہی مقرر تھی۔یہی نہیں تراخانی حکومت کے عروج کے زمانے میں ایک شہزاده شاہ رئیس خان بدخشان فرار ہوا تھا۔اور یہ روایت بھی موجود ہے کہ تاج الدین مغل کو گلگت پر حملے کی دعوت بھی شاہ رئیس خان نے ہی دی تھی۔اور تاج الدین کے بدخشان واپسی کے بعد شاہ رئیس خان کو چترال کا حاکم مقرر کیا گیا تھا۔ تراخان دور حکومت میں چترال ریاست کا شمالی صوبہ رہا تھا۔سولہ ویں صدی عسوی کے وسط میں مقپون شہزاده علی شیر خان انچن نے گلگت کو تاراج کرتا ہوا چترال پہنچ گیا۔اور چترال میں اپنے فتح کے جھنڈے گاڈ دیئے۔تسخیر چترال سے واپسی پر شندور پولو گرانڈ میں علی شیر انچن نے پولو کا ایک یادگار کھیل کھیلا تھا۔علی شیر انچن پہلے شخص نہیں تھے جس نے شندور میں پولو کھیلا تھا ۔بلکہ اس پولو گرانڈ کی کہانی صدیوں تک محیط ہے۔
ستره ویں صدی میں چترال میں جب کٹور خاندان برسراقتدار ایا تو اس کے ساتھ یاسن بھی براہ راست ان کے زیر اثر ا گیا۔یاسن اور چترال میں قدم جمانے کے بعد سنگ علی نے گلگت پر تسلسل کے ساتھ حملے کرنا شروع کئے ۔اس کے ساتھ ساتھ ریاست ورشگوم (یاسن) کے حکمرانوں نے بھی گلگت پر متواتر حملے کیں۔اور سلیمان شاہ پہلا حمکران تھا جس نے گلگت کے ضعیف تراخان حکمران غوری تھم کو موت کے گھاٹ اتار کر گلگت پر پہلی بار قبضہ کر لیا۔تاریخ کے اس موڈ سے گلگت یاسن اور چترال کے درمیان جنگ و جدل کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں نے ایک دوسرے کے خلاف سکھوں اور ڈوگروں کی بھی مدد لینی پڑی۔اور اپنی خودمختاری کو بھی داو پر لگا دیا جب محمد خان اور عباس کو سلیمان شاہ نے تھاوس بری کھن قلعے میں قتل کر دئے تو جوابی وار میں جوار خاتون کی ایماء پر اذاد خان نے سلیمان شاہ کو چھوہر قلعے میں موت کے گھاٹ اتارا۔یہی وہ وقت تھا کہ گلگت کے تمام اذاد ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل میں مصروف ہو گئے۔ جب یاسن اور چترال کو ایک دوسرے سے جدا کر کے الگ ریاستیں بنائیں گیں۔ تو شروع میں مستوج کو اس ورشگوم ریاست کا مرکز بنایا گیا تھا ۔لیکن بعد میں یاسن کو پایہ تخت بنایا گیا۔اور ریاست ورشگوم کی اخری حد مستوج تھی۔1858 میں جب امان الملک مہتر چترال بنے تو اپنے مقبوضات کو وسعت دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئے۔اور پہلے پہل چھشی کوہ غذر تک کے علاقے کو اپنے مقبوضات میں شامل کیا۔لیکن ان کی نظریں بدستور یاسن کی طرف مرکوز تھیں ۔اور صحیح وقت کے انتظار میں تھے۔بہر کیف یاسن کے مجموعی سیاسی نظام کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہوئی۔تاریخ شاہد ہے کہ یاسن والوں نے کبھی اپنی مقامی قیادت کو حکمران تسلیم نہیں کیا ۔یہی وجہ ہے کبھی یہ چترال کے حکمرانوں کے زیر سایہ رہے کبھی گلگت کے تراخان حکمرانوں کے۔یہ مختلف اوقات میں مختلف حکمرانوں کے الہ کار بنے۔اور وہی غیر مقامی حکمران ان لوگوں کی جنگوانہ فطرت کی وجہ سے اپنے مقبوضات کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔جس کا خمیازہ بعد کے ادوار میں ان کی نسلوں کو بھگت لینا پڑھا۔
امان الملک نے سن 1878 تک یاسن پر قبضہ نہیں جما سکے تھے لیکن 1878 کے جولائی کے مہنے میں پلاون بخدور کو کمک دینے کا جانسہ دے کر گلگت پر حملہ کرا کر خود یاسن پر قبضہ جما بیٹھا۔اور اپنے بیٹے نظام الملک کو حاکم یاسن مقرر کیا ۔پلاون یغستان فرار ہوا جہاں اپنے بھائی ملک امان کے ہاتھوں قتل ہوئے۔تاریخ میں پہلی دفعہ یاسن چترال کے مقبوضات میں شامل ہوا۔امان الملک مہتر چترال نے بلاخر اپنی دیرینہ خواب کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئے۔سن 1892 میں امان الملک وفات پا گئے جس کے ساتھ ہی امارت چترال کا شیرازہ بھی بکھرنے لگا۔افضل الملک ریاست چترال پر متمکن ہوئے۔اور طاقت کے نشے میں یاسن پر بھی حملہ کر دیا۔نظام الملک اس حملے سے قبل ہی گاہکوچ قلعے میں پناہ گزین ہوئے تھے۔جہاں کرنل دیورینڈ جود موجود تھے۔یاسن کو تاراج کرنے کے بعد افضل چترال لوٹ گئے۔ان عشروں میں افغانستان میں موجود امان الملک کے بھائی شیر افضل بدستور افضل الملک کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے۔ابھی افضل الملک کو ریاست کے انتظام کو سنبھالے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا شیر افضل چترال کو تہ بالا کرتا ہوا قلعہ دورش پہنچ گیا جہاں افضل الملک موجود تھے۔اور قلعے کا محاصرہ ہو گیا۔یہ حملہ اتنی جلدی میں ہوا کہ افضل الملک کو پتہ بھی نہیں چل سکا۔محاصرے کی ایک رات افضل الملک ایک اندھی گولی کا نشانہ بنے۔اس کے ساتھ چترال پر شیر افضل کا قبضہ ہو گیا۔یاسن کی سیاسی صورت حال بدستور غیر موامق رہی۔چترال میں سول وار شروع ہو چکی تھی۔شیر افضل اور عمرہ خان کے چترال پر قبضے کو چھڑانے کے لے نظام الملک نے انگریزوں کی مدد سے چترال پر حملہ کر دیا۔چترال پراس حملے میں ریاست ہنزہ اور ریاست نگر نے کلیدی کردار ادا گیا۔محمد نظیم خان نے وزیر ہمالوں اور وزیر زرپرست کو ایک ہزار فوج کے ساتھ چترال بھیج دئے تھے۔نظام نے انگریزوں کی مدد سے چترال پر قبضہ تو کر لیا لیکن 1895میں امیر الملک کے ہاتھوں دوران شکار قتل ہوئے ۔انگریزوں نے جب چترال پر اپنی تسلط قائم کی تو یاسن (ورشگوم) اور چترال کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا۔یاسن ایک بار پھر چترال کی مقبوضات سے اذاد ہو گیا ۔یہ چترال میں مہتر شجاع الملک کا دور تھا۔سرکار انگلشہ نے مُلک کٹور کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا اور کوہ غذر اور ورشگوم کا الحاق ریاست کشمیر کے ساتھ کر کے گلگت کو شمالی صوبے کا دارلخلافہ بنایا گیا۔مہتر شجاع الملک نے اس تقسیم کی شدید مخالفت کر دی ۔ٹھیک پندره سال بعد مہارجہ پرتاب سنگھ نے تقریباً ورشگوم کا نصف حصہ مستوچ سے سو لاسپور تک کے وسعی علاقے کو دوبارہ چترال کا انتظامی حصہ بنا لیا۔شندور پار اس طرف چترال اور ریاست ورشگوم (یاسن ) کی حد بندی مقرر کی گئی۔ شندور بدستور ریاست کی حدود میں شامل رہا۔یہی شندور ہے جس کو بنیاد بنا کر دنوں اطراف کے عوام میں نفرتیں پیدا کی جارہی ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں نے زمین کو تو تقسیم کر دیا لیکن دونوں خطوں کی مشترکہ ثقافت زبان رسم و رواج موسیقی اور ان کے دلوں میں موجود پیار و محبت کو تقسیم نہیں کر سکے ۔یہی وجہ ہے کہ اج بھی ان خطوں کے منقسم اقوام ایک دوسرے سے خونی رشتوں میں جوڈے ہوئے ہیں۔