کالمز

دیامر بھاشا ڈیم اور چندہ

محترم چیف جسٹس صاحب کا ایک بیان نظر سے گزرا بات ڈیمز کے متعلق تھی اس لئے اس میں دلچسپی پیدا ہوئی وہ اس لئے کہ گلگت بلتستان میں بھی پچھلے کئی سالوں سے یہ سن رہے ہیں کہ سکردو ڈیم، بونجی ڈیم ،ہینزل ڈیم اور دیامر بھاشا ڈیم لیکن کسی بھی ڈیمز کے ابھی تک ہمیں آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ اس کی زندگی کے دو ہی مقصد ہیں ایک ڈیمز کی تعمیر اور دوسرا قرض اتارنا ۔طاہر ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی مدت ملازمت میں تو یہ دونوں چیزیں مکمل ہوتی دکھائی نہین دیتی اس بارے چیف صاحب کا یہ کہنا ہے کہ وہ ریٹائرڈ کے بعد بھی یہ کام جاری رکھئنگے ۔ہمین چیف صاحب کے خلوص اور پاکستان سے اس کی محبت پر فخر ہے کہ وہ اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔جاں کی اماں پاتے ہوئے چند ایک گزارشات یہ ہیں کہ پاکستانی قوم ایک ایسی قوم ہے جو صرف اور صرف عہدوں اور مرتبے کا پاس رکھتے ہوئے اپس میں لین دین کرنے کے عادی ہیں اور جس فرد کے پاس یہ چیزیں نہ ہوں تو یہ قوم اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔خدا کرے کہ چیف صاحب کی تمنا پنشن ہونے کے بعد بھی اس کام کو جاری رکھنے والی ثمر آور ثابت  ہو۔چیف جسٹس صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کا ہر بچہ ایک لاکھ سترہ ہزار روپے کا مقروض ہے۔ ڈیمز کی تعمیر کے لئے فنڈ قائم کرنا بھی چیف جسٹس صاحب کا ایک احسن قدم ہے اس فنڈ میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس صاحب کےاپنے دس لاکھ کے ساتھ کل ڈھائی کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی چندے کی رقم سے یہ ڈیمز مکمل کر سکئنگے۔۔جہاں تک دیامر بھاشا ڈیم کا تعلق ہے اس بارے اطلاع یہی ہے کہ تمام بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے اس کی کی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس کی وجہ اس ڈیم کا متنازعہ خطے مین تعمیر ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ چیف جسٹس صاحب جاتے جاتے گلگت بلتستان کی طرف بھی ایک نظر کرم کرتے ہوئے اس کی متنازعہ حثیت کا کوئی حل سوچتے یا کوئی تجویزہی پیش کرتے اور اگر چیف جسٹس صاحب ایسا کرتے ہیں تو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے باسی خود اپنے زور بازو سے اس ڈیم کو مکمل کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے جیسے انہوں نے اپنے زور بازوں سے گلگت بلتستان کو آزاد کراکے اسے متنازعہ حثیت مین پہنچایا۔ ڈیم سے متعلق اندازے اور تخمینے کچھ یوں ہیں کہ اس ڈیم کی کل لاگت اٹھارہ سے بیس ارب کے لگ بھگ بنتی ہے اور اس کو مکمل ہونے کے لئے چودہ سال کا عرصہ درکار ہے فرض کرتے ہیں کہ پاکستان کی ساری آبادی بشمول نو زائیدہ بچے مبلغ تیس ہزار روپے دیں تو شائد ڈیم بر وقت مکمل ہونے کی بات بنتی نظر آئے لیکن سوال یہاں یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان میں ایک عام فرد کی اتنی اوسط آمدنی یا تنخواہ ہے۔ بقول چیف جسٹس صاحب پاکستانی بچہ ایک لاکھ سترہ ہزار کا مقروض ہے تو کیا تعمیر کے اس عرصے میں قرض کی یہ رقم مزید نہیں بڑھ جائیگی۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ چییف جسٹس صاحب اس سلسلے میں ایک حکم نامہ جاری کرتے اور ہر پاکستانی سے تیس ہزار روپے اس فنڈ میں جمع کرنا لازم قرار دیتے تاکہ یہ ڈیمز ہماری ہی زندگی مین مکمل ہو جاتے اور کچھ دن ہم بجلی کی نعمت سے لطف اندوز ہوجاتے اور چیف جسٹس صاحب کا اعلیٰ مقصد بھی پورا ہو جاتا ۔۔میرے خیال میں ڈیم کی تعمیر میں چندہ جسٹس صاحب کی اس جادوئی حُکم سے ہی کوئی کرشمہ دکھا سکتا ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button