وہاں کچھ خاص ہے
تحریر: فدائی
قدرت نے کرہ ارض کو اپنے خاص حکمت و قدرت کاملہ سے بیش بہا انواع اقسام کے نعمتوں سے مالامال کر رکھا ہے اور یہ تمام نعمتیں اشرف المخلوقات کیلئے مسخر کیا ہے ۔انسان قدرت کے ان تمام نعمتوں سے استفادہ حاصل کرتا ہے مگر کچھ کم علم اور ناسمجھ انسان اللہ کے عطا کردہ نعمتوں کی قدردانی میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں پھنڈر کے نواحی گاوں برست میں موجود چمرکنڈ پل سے شمال کی طرف 20 منٹ کا سفر کر کے اس جگہ پہنچا جا سکتا ہے جہاں قدرت نے اپنی کاریگری کا ایک عظیم،لافانی و لاثانی ہنر کا نشان بنی نوع انسان کے لئے ظاہر کیا ہے جب اس قسم کے قدرتی کرشمات نگاہوں سے گزرے تو زبان سے اللہ تعالی کی بڑائی کی صدا خود ہی بلند ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔چمر کنڈ نالے کے کنارے میں موجود چٹان سے ایک چھوٹا چشمہ بہتا ہے اس چشمے کو یہاں کے مقامی زبان میں تروق اوچ یعنی کڑوا چشمہ کہا جاتا ہے اس چشمے کا نام تروق اوچ اس لئے موسوم ہوا کیونکہ یہ چشمہ وہاں کے دیگر چشموں سے ذائقے کے اعتبار سے بہت کڑوا ہے اور آج تک دنیا میں اس قسم کے چشہ دریافت نہیں ہوا ہے یہ چشمہ ذائقے کے لحاظ سے عالمگیر حیثیت رکھتا ہے اس چشمے کا ذائقہ موجودہ دور کے ٹھنڈی مشروبات یعنی سپرائت اور ڈیو سے مشابہت رکھتا ہے اس کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا پانی زیادہ دور نہیں لے جایا جا سکتا زیادہ دیر رکھنے سے اس کا ذائقیہ ختم ہو جاتاہے اس لئے جنہیں پینا مقصود ہو وہ یہاں آکر ہی اس کا لطف اٹھا سکتے ہیں ۔یہاں کے باسیوں کے مطابق یہ چشمہ کئی مہلک بیماریوں کے لئے موثر داوا بھی سمجھا جاتاہے جن میں تپ دق ،اور جسم میں موجود گرمائش سر فہرست ہیں اس چشمے کی یہاں پر موجودگی سے متعلق بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں البتہ بین الاقوامی مما لک کے لوگوں کو پاکستان کے لوگوں سے زیادہ علم ہے اس بات کا اندازہ بیرون ملک سے وہاں آنے والے سیاحوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔اس چشمے کے مقام پر ملکی لوگوں کے نسبت بیرون ملک سیاحوں کا رش رہتا ہے یہ علاقہ زیادہ پسماندہ اور دشوار گزار ہونے کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی آنکوں سے چشمہ تا حال پوشیدہ ہے آج تک کسی اخبار یا ٹی وی میں اس خاص چشمے کا ذکر نہیں ہوا ہے شاید یہی وجہ ہو سکتا ہے کی لوگ یہاں پہنچنے میں دقت محسوس کرتے ہو کیونکہ اس چشمے تک پہنچنے میں قلیل کثافت طے کرنا پڑتا ہے علاقے کے بزرگ حضرات سے جب اس چشمے سے متعلق معلومات لیا تو معلوم ہوا کہ یہ چشمہ 1837سے قبل ایک انگریز نے دریافت کیا انہوں جب چترال سے براستہ چمرکنڈ گلگت بلتستان کا سفر کررہے تھے کہ انہیں چمرکنڈ کا علاقہ جہاں یہ چشمہ پایا جاتاہے میں خیمہ زن ہونا پڑا رات کے وقت اس نے گھوڑا یہاں باندھا اور صبح جب گھوڑے کا رسی کھولا تو اس کے پیروں تلے زمین سے پانی نکلتا پایا بتایا جاتا ہے کہ اس انگریز کے یہاں رات بسر کرنے سے قبل یہاں پر کسی قسم کا کوئی چشمہ موجود نہیں تھا البتہ ان کے ایک رات یہان قیام کرنے سے یہ تمام وجود میں آیا تھا اس دریافت پر انگریز نے مقامی لوگوں سے اس چشمے کئی حفاظت کرنے کا کہا اور اس کے مطابق یہ چشمہ انتہائی وہمیت کا حامل بھی قرار دیا گیا ۔ایک رویت کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بتوں کے دور میں یہ علاقہ بتوں کے قبضے میں تھا اور یہاں کئی بے گناہ افراد کا نا حق خون کیا گیا ہے جس پر ارض رویا اور اس کا انسو اس چشمے کی صورت میں دیکھا گیا ان ابہام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو انداہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ حقیقت کیا ہے لیکن ہم صرف اپنے فائدے کا ہی سوچ سکتے ہیں یہ چشمہ اگر بالا سطور بیماریوں کے لئے بطور داوا استعمال کرسکتیں ہیں موجودہ دور کے انگریزی ادوات کے استعمال کرنے سے مفت اور قدرتی داوائی سے علاج دہلیز پر میسر ہے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی ہمارہ کیا ہوسکتا ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اس خاص قسم کے چشمے کے حوالے سے مہم چلایا جا سکتا ہے جس سے لوگ واقف ہو اور اس چشمے سے مستفید ہوسکیں یہاں پر حکومت پاکستان بلخصوص گلگت بلتستان کی حکومت سے کہ اس طرح کے پرکشش مقامات کے لئے بہتر روڑ اور دیگر سروسز مہیا کرکے لوگوں کو وہاں آنے اور جانے میں اسانیاں پیدا کرے جس نہ صرف یہاں آنے والوں کو فائدہ ہوگا بلکہ وہاں کے باسیوں کو بھی روزگار کے مواقع میسر ہوسکیں اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں بھی اس قسم کے بے شمار انواع اقسام کے نباتات و قدرتی جڑی بوڑییاں ہائی جاتی ہیں جن سے مہلک بیماریوں کے علاج سمیت اور بھی خطیر فائدے اٹھایا جا سکتا ہے ضرورت ہے تو بس حکومتی توجہی اور لوگوں میں شعور اجاگر کرنے لی ہے عہد کرکے اپنے علاقے میں اس قسم کے قدرتی نعمتوں کو میڈیا میں لائے تاکہ ضرورت مند لوگ ان قدرتی کرشمات سے مستفید ہو سکیں ۔