رودادِ تفریحی و ادبی محافل
جمشید خان دکھی
اس بار 15جولائی 2018کو اتوار کے دن سہ پہر چار بجے حلقہ ارباب ذوق(حاذ) کے ماہانہ مشاعرہ کا اہتمام سچ ٹی وی گلگت کا نمائندہ جناب ظفر عباس کی دعوت پر ان کے گاؤں جوتل میں کیا گیا تھا۔حلقہ ارباب ذوق (حاذ ) گلگت کا قافلہ جب جوتل پہنچا تو ظفر عباس اور ان کے بھائیوں نے بھرپور استقبال کیا۔ظفر عباس نے پہلے ہی چیری ڈے کے موقع پر (حاذ )کے اعزاز میں جوتل میں ایک محفل شعرو سخن کے انعقاد کرنے کا وعدہ کیا تھے جسے انہوں نے آج عملی جامع پہنایا۔
حاذ کا قافلہ سینئر نائب صدر حاذ جناب عبدالخالق تاج کی قیادت میں ساڑھے تین بجے ہی جوتل پہنچا جبکہ صدر حاذ پروفیسر محمد امین ضیاء اور سینئر شاعر محمد نظیم دیا کسی گھریلو اہم مصروفیت کی وجہ سے کافی دیر سے آئے۔جو شعراء کرام اس محفل میں شریک ہوئے ان میں پروفیسر محمد امین ضیا ء، عبد الخالق تاج ،محمد نظیم دیا ۔ غلام عباس نسیم ۔ شا ہ جہان مضطر ، تہذیب حسین برچہ ، آصف حسین آصف، محمد ظہیر سحر، حورشاہ حر ، بشیر احمد بشر اور جمشید خان دکھی کے نام شامل ہیں۔عصر کے قریب تقریباً 5بجے محفل مشاعرہ شروع ہوئی جس کا اہتمام ظفر عباس نے اپنے گھر کے چمن میں کیا تھا، ساؤنڈ سسٹم کا بھی انتظام کیا گیا تھا ، گلگت سے ہمارے ساتھ حاذ کے معروف قلمکار احمد سلیم سلیمی بھی اس محفل میں شریک ہوئے ۔ نظامت کے فرائض برادرم غلام عباس نسیم نے انجام دیئے۔سب سے پہلے غلام عباس نسیم نے میزبان ظفر عباس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حاذ کے شعراء اور شرکاء کو خوش آمدید کہا اور اپنے کلام سے محفل شعر و سخن کا آغاز کیا ۔ آخر میں میزبان ظفر عباس نے حاذ کے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کسی مناسب موقع پر اس سے بہتر انداز میں محفل شعر و سخن کا اہتمام کیا جائیگا۔
محفل میں شریک شعراء کا نمونہ کلام ذیل میں نذر قارئین کیا جاتا ہے:
پروفیسرمحمد امین ضیاء
ساری بشارتیں تجھے دنیا میں دے گیا
اس کا ثبوت سورۂ رحمان کیا ہوا
عبد الخالق تاج
ہو رہا ہے کیا یہ پاکستان میں
پھر مداری آگئے میدان میں
نطیم دیا
زندگی کو نصاب لکھتا ہوں
گویا میں اک عذاب لکھتا ہوں
غلام عباس نسیم
مرا چمن ہے یہاں میرا خون شامل ہے
کسی کے باپ کا یہ گلستان تھوڑی ہے۔
شاہ جہان مغطر
زندگی مشکلوں میں گزرے گی
کسی مفلس کا تو ضمیر نہ بن
محمدظہیر سحر
بڑھا لے تو مظالم اور اپنے
کہ ہم نے دل کشادہ کر لیا ہے
بشیر خان بشر
پینٹ کر کر کے جو چہرہ ہی بدل دیتے ہیں
وہ تو جھریوں کو بھی زلفوں کا سا بل دیتے ہیں
تہذیب حسین برچہ
حیا کی اوٹ میں قوس و قزاح کے رنگ ابھریں گے
توجہ عارضِ جاناں پہ جب مرکوز ہو جائے
آصف علی آصف
رب نے انسان کی صورت میں جو تراشا ہے
اس سے بڑھ کر کوئی شہکار ہو نہیں سکتا
حور شاہ حر
طائرا جال ہے بکھرے ہوئے دانوں پہ نہ جا
تم پہ صیاد یونہی مہربان تھوڑی ہے
جمشید دکھی
بلبل کبھی چمن میں نہ غم سے نڈھال ہو
یارب مرے وطن کا خصوصی خیال ہو
قبل ازیں 24جون 2018کو دن کے 2بجے PTDCسکردو میں بزم علم و فن سکردو کے زیراہتمام سالانہ منعقد ہونے والے پروگرام "حسینؑ سب کا”میں شرکت کے لئے بقول تاج صاحب حاذ کے ارکان خمسہ جن میں پروفیسر محمد امین ضیاء صدر، عبد الخالق تاج ، عبد الحفیظ شاکر، غلام عباس نسیم اور جمشید خان دکھی کے نام شامل ہیں ، 23جون کو ہفتے کے دن صبح 11بجے کے قریب سکردو کے لئے بذریعہ استور ڈرائیور سہیل کی گاڑی میں روانہ ہوئے۔ساڑھے تین بجے کے قریب ہمارا قافلہ استور پہنچا جہاں سفیان دکھیؔ ڈپٹی اٹارنی اور اس کے دوستوں نے ہمارا استقبال کیاجنہوں نے ریسٹ ہاؤس میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ظہرانے کے بعد ریسٹ ہاؤس میں موجود توت کے درخت پر سہیل ڈرائیور چڑھا اور روایتی طریقے سے توت جمع کر کے مہمانوں کو پیش کیا۔ظہرانے کے بعد ہمارا قافلہ سکردو کے لئے روانہ ہوا ، رات دس گیارہ کے قریب ہم سکر دو پہنچے تو اسلم سحر، فرمان خیال اور دوسرے بہت سارے احباب ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے اور بلتورو ریسٹ ہاؤس میں ہماری رہائش کا اہتمام کیا تھا۔میں، ضیاء صاحب اور تاج صاحب نے ایک کمرے میں رہائش اختیار کی جبکہ حفیظ شاکر اور غلام عباس نسیم کی رہائش ساتھ والے کمرے میں تھی جبکہ ڈرائیور سہیل کے لئے بھی الگ رہائش کا اہتمام تھا۔ 24جون 2018اتوار کی صبح ناشتے کے بعد ہم شگر کے لئے روانہ ہوئے ، شگر فورٹ میں ہنزہ کے ہمارے دوست کریم نے شاندار استقبال کیا اور سرینا ہوٹل کی چائے سے ہماری تواضع کی ۔اس کے بعد راجہ شگر اور معروف شاعر راجہ محمد علی شاہ صاحب کی عیادت کے لئے فورٹ کے ساتھ واقع ان کی رہائش پر گئے تو راجہ صاحب شاید سوئے ہوئے تھے اس لئے انہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں سلام اور نیک تمناؤں کا پیغام بھیج کر عازم سکردو ہوئے۔ سکردوPTDCمیں دوپہر 2بجے پروگرام کا انعقاد ہوا جس میں نظامت کے فرائض بزم علم و فن کے روح رواں اسلم سحر نے انجام دئے۔پروگرام کے لئے حسب سابق وطن عزیز کے دیگر حصوں سے علماء کرام اور منقبت خوانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ شام تک پروگرام جاری رہا اور حسبِ روایت اسلم سحر کے گھر رات کے کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں پر مہمانوں کے علاوہ بلتستان کے معروف عالم دین شیخ جعفری صاحب بھی موجود تھے سکردومیں قیام کے دوران شاعر دوستوں احسان دانش، ذیشان مہدی، عباس جرأت، رضا بیگ گھائل اور دوسرے دوستوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔۔اہلسنت کے علماء کرام نے اس موقع پر حاذ کے دوستوں سے کہا کہ وہ گلگت روانہ ہونے سے پہلے ان کے مدرسہ تشریف لائیں۔لہٰذا 25جون 2018کو سکردو کے احباب سے اجازت لیکر گلگت کے لئے براستہ دیوسئی روانہ ہوئے البتہ روانگی کے دوران اہلسنت کے مدرسہ میں ضیاء صاحب کی قیادت میں حاضری بھی دی۔اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے علماء کرام نے اس پروگرام کے انتظامی معاملات کے حوالے سے کچھ تحفظات کا بھی اظہار کیاجب کہ حاذ کے احباب نے بھی اس کی تائید کی۔ حاذ کے سینئر شاعر عبد الحفیظ شاکر نے اسلم حسین سحر کو پہلے ہی ان تحفظات سے آگاہ بھی کر دیا تھا۔اہل سنت کے مدرسے میں چائے کے بعد ہمارا قافلہ گلگت کے لئے روانہ ہوا اور دیو سئی میں خوب سیر و تفریح کے علاوہ فوٹو گرافی بھی کی ۔ دیو سئی سے استور جاتے ہوئے راستے میں دوپہر کی روٹی کھائی اور رات دس بجے بخیر و عافیت اپنے اپنے گھر پہنچے۔سکردو کا سفر بہت خوشگوار رہا جس میں ہمسفر شاعر ساتھیوں کی خوش طبعی اور سہیل ڈرائیور کی کرامات دونوں شامل تھیں۔
12جولائی 2018جمعرات کے دن برادرم غلام عباس نسیم کے بھائی علی غلام کی دعوت پر حاذ کے سینئر احباب پروفیسر محمد امین ضیاء، عبد الخالق تاج ، احمد سلیم سلیمی ، محمد نظیم دیا ، عبد الحفیظ شاکر، اشتیاق احمد یاد پھیکر نگر کے لئے صبح 11بجے گلگت سے روانہ ہوئے۔غلام عباس نسیم کی گاڑی میں پروفیسر محمد امین ضیاء ، عبد الخالق تاج ، راقم جمشید دکھی اور غلام عباس نسیم کے صاحبزادے ظہیر عباس سوار تھے جبکہ نظیم دیا کی گاڑی میں حفیظ شاکر احمد سلیم سلیمی اور اشتیاق احمدیاد سوار تھے۔ جب ہمارا قافلہ راستے میں ٹہلتے ٹہلتے دوپہر ایک بجے پھیکر پہنچا تو محترم غلام عباس نسیم کے بھائی علی غلام اور ان کے بیٹوں نے ہمارا بھرپور استقبال کیا ۔ سب سے پہلے چائے اور فروٹ سے ہماری تواضع کی گئی اس کے بعد فریش ہو کر ہم اس خوبصورت وادی کی سیر کے لئے نکلے اور ایک سبزہ زار میں سبزے کے فرش پر بیٹھ گئے۔قرب و جوار کے احباب اور نوجوان بھی شعراء کو دیکھ کر جمع ہو ئے ۔حاذ کے شعراء بھی یہاں کی خوبصورتی اور خوشگوار آب و ہوا دیکھ کر شاعری پر آمادہ ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس سبزہ زار میں محفل مشاعرہ منعقد ہوئی۔ معروف قلمکار اور افسانہ نگار احمد سلیم سلیمی نے نظامت کے فرائض سر انجام دئے جبکہ پروفیسر محمد امین ضیاء ، عبد الخالق تاج ، محمد نظیم دیا ، غلام عباس نسیم ، حفیظ شاکر ، اشتیاق احمد یاد اور جمشید دکھی نے اپنا کلام سنایا۔مشاعرہ کے بعد سر شام واپس میزبان کے گھر آئے تو پر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھالہٰذا تناول ماحضر کے بعد میزبان سے رخصت لیکر واپس گلگت کے لئے عازم سفر ہوئے ۔ راستے میں راکا پوشی ویو پوائنٹ پر چائے پی شام کی نماز پڑھی اور گھر کے لئے روانہ ہو گئے اور رات دس بجے اپنے اپنے گھرلوٹ آئے ۔ حاذ کے احباب کے لئے دعوتوں کا سلسلہ چل نکلا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں کے علاوہ قرب و جوار میں رہنے والے وادیوں کے لوگ اپنے علاقے کے اہل قلم سے کس قدر محبت کرتے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ خدا وند قدوس ان محبتوں کو اور مستحکم کرے اور انہیں ملت کے بہترین مفاد میں بروئے کار لانے کی توفیق عطا فرمائے۔اپنے اس پیغام کے ساتھ اجازت چاہوں گا:
برباد ہو نہ جاؤ یوں فتنہ فساد میں
اس قوم کی بقاء ہے فقط اتحاد میں
مومن بجائے پڑنے کے بغض و عناد میں
کرتے ہیں پیار آل محمدؐ کی یاد میں