کالمز

گرین ٹوریزم کے نام پر گلگت بلتستان میں سلامتی کونسل کے قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی

گلگت بلتستان میں سیاحتی شعبے کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کے نام پر حال ہی میں ایس آئی ایف سی(سپیشل انویسمنٹ فیسلیٹیشن کونسل)کے زیر اہتمام گلگت بلتستان حکومت نے44 سرکاری ریسٹ ہاوسز اور  نرسریاں بشمول ملحقہ خالی زمینو ں جو کئی ہزار کنال پر مشتمل ہیں، انتہائی کم قیمت پر بغیر کسی ٹینڈراور اخباری اشتہار کے گرین ٹورازم نامی ایک نوزائدہ کمپنی کو لیز پر دینے کاباقاعدہ نوٹفکیشن جاری کردیا۔

بتایا جاتا ہے کہ  معاہدے میں شامل جنگلات کی زمینیں جہاں کوئی عمارت موجود ہی نہیں وہ کل  4199 کنال ہے جس کی  قیمت  سرکاری تخمینہ کے مطابق 11 ارب سے زائد بنتی ہے اورمارکیٹ ویلیو  30 ارب سے ذیادہ  ہے۔نوٹ: اس حوالے سے تمام تر تفصیلات سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

اس معاہدے میں کمپنی کو زمینوں پر تعمیرات کا مکمل حق حاصل ہوگا اور معاہدہ   30 سال کیلئے ہوگا۔ معاہدہ ختم کرنے کی صورت میں حکومت گلگت بلتستان اس بات کا پابند ہوگا کہ اُس وقت کے مارکیٹ کے حساب سے کمپنی قیمت ادا کریں۔ یقینا یہ ایک ایسا شق ہے جس پرعمل کرنا گلگت بلتستان حکومت کیلئے  ناممکن ہوگا  اور اور بحالت مجبوری لیز کی مدت میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ یوں کمپنی کے پاس ان ریسٹ ہاوسز اور زمینوں پر لیز کا  قبضہ ایک  طرح سےدائمی ہوجائے گا۔ جس کی مثال شنگریلا ریسٹ ہاوس سکردو ہے۔

اس حوالے سے گلگت بلتستان کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کا ذکر کرنے سے پہلے بنیادی سوال یہ ہے کہ جن سیاحتی مقامات ریسٹ ہاؤسز، چراگاہوں اور نرسریوں کو پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر جس نوزائدہ کمپنی کے حوالے کی ہے۔ ان کے ماہانہ کرایئے کس نے طے کئے ہیں؟

کیا گلگت بلتستان کے کسی اسٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہے؟

کس نظام کے تحت ایک کنال اراضی کا ماہانہ کرایہ 3 سو روپے اور کروڑوں کی لاگت سے تعمیر کئے جانے والے ریسٹ ہاوسز کا ماہانہ کرایہ مارکیٹ ویلیو کی بجائے خستہ حالی  اور خالی ہونے کی آ ڑ میں 30 سے 40 ہزار مختص کیا ہے ؟

یقینا یہ اقدام گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے۔ 

جن سیاحتی مقامات اور سرکاری نرسریوں کو کمپنی کے حوالے کیا گیاہے وہ پوری طرح عوامی ملکیت ہیں اورماضی میں محکمہ جنگلات اور محکمہ سیاحت نے ایسے ہی کئی مقامات جہاں ہزاروں کنال زمین موجود ہے نرسریاں بنانے اور دیگر مقاصد کیلئے  بغیر کسی معاوضے کے لیز پر لیا ہے جس کی مدت ختم ہوچکی ہے اور مقامی لوگوں اور متعلقہ اداروں کے درمیان زمینوں کی واپسی کے لئے عدالتوں میں مقدمات موجود ہیں۔

اس حوالے سے حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔

بظاہر گلگت بلتستان حکومت سے زبردستی معاہدہ کروایا گیا اور معاہدہ کراچی کی طرز پر دستخط ہوگئے ہیں، جس کی حقیقت آنے والے وقتوں میں انہی حکمران  اشرافیہ کی زبانی  سامنے آئے گی۔

بنیادی اور اہم سوال گلگت بلتستان حکومت کی اختیارات پر ہے کہ کیا گلگت بلتستان حکومت اس بات کی مجاز ہے کہ وہ خطے کی جعرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کیلئے سہولت کار بنے؟ جبکہ خطے کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے زریعے ہونا باقی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے کئی اہم فیصلے موجود ہیں جس  میں خطے میں ٹیکس کے  نفاذ کے خلاف 1994ء میں ایک آئینی درخواست جو الجہاد ٹرسٹ فیصلہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس آئینی پٹیشن پہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک لارجر بنچ نے سال 1999ء اور 2019 میں لاجر بنچ نے گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار دیکر خطے کے عوام کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے اوپر خود حکومت کرنے کا اختیار دینے اور یہاں کے عوام کے بنیادی حقوق کے  تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے آئینی گارنٹی کے ساتھ ایک آزاد خودمختار عدلیہ قائم کرنے  کا حکم تھا۔ یعنی یہ بات روز روشن کی طرح  عیاں ہے کہ گلگت بلتستان سابق ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے۔ اسی تناظر میں ریاست جموں کشمیر میں شامل خطوں کے ساتھ گلگت بلتستان کا مقدمہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹرڈ پر مسلہ کشمیر کی شکل میں موجود ہے۔

گلگت بلتستان کا وفاق پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا الحاق نہیں ہوا۔ جسکا ثبوت ملک کے آئین کا آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 257 ہے۔ مُلکی قوانین کی نسبت قانون باشندہ ریاست سٹیٹ سبجیکٹ رول جو  31  جنوری  1927 کو مہاراجہ جموں کشمیر نےبنایا تھا ذیادہ اہمیت رکھتا ہے۔کیونکہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے جس سیاسی  اور جعرافیائی مستقبل مسلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔ قانون باشندہ  ریاست  کے مطابق غیر ریاستی باشندے گلگت  بلتستان میں ایک انچ زمین بھی نہیں خرید سکتے۔لیکن 1970 کی دہائی میں   باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قانون باشندہ  کو غیر فعال کردیا گیا تھا، اور اس قانون کی غیر فعالیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب لامتناہی غیر مقامیوں باشندوں نے گلگت بلتستان میں زمین خریدی ہے اور ڈومیسائل بھی بنائے ہیں۔ اس حوالے سے ریاست اور ریاستی ادارے خاموش ہیں۔ حالانکہ ریاست پاکستان کا گلگت بلتستان متنازعہ ہونے اور ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہونے کے حوالے سے قومی بیانئے میں 1947 سے لیکر آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ریاست آج بھی خطےکو جموں کشمیرکا حصہ سمجھتی ہے۔ لیکن دوسری طرف قانون باشندہ ریاست کی خلاف ورزی میں براہ راست اہم سرکاری عہدے داران ملوث ہیں جو کہ متنازعہ خطے کے اندونی معاملات میں براہ راست مداخلت اور مسلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف اور سلامتی کونسل کے متفقہ چارٹرڈ کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی نئی شکل گرین ٹورازم کے نام سے سامنے آئی ہے جس کیلئے تمام حکومتی وزراء سمیت تاریخ اور قانون سے لاعلم  چند لوگ ایک طرف خطے کے عوام ایک طرف نظر آتا ہے۔

خطے کی متنازعہ حیثیت کا ایک اور اہم ثبوت  پاکستان ہندوستان اور اقوام متحدہ کے عسکری مندوبین کے مابین طے پانے والے معروف کراچی ملٹری ایگریمنٹ 27 جولائی 1949  ہے جس کے تحت پوری ریاست کا نقشہ بنا کر یو این سیکورٹی کونسل کے ریکارڈ کا حصہ بنایا ہوا ہے۔اس نقشے کے اندر ریاست جموں کشمیرکا پاکستان، ہندوستان چین اور افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی  سرحدوں کے ساتھ عبوری سیز فائر لائین بھی طے ہیں اور معاہدےمیں اقوام متحدہ  ضامن اور پاکستان اور ہندوستان دستخط کارہیں۔یہی وجہ ہے کہ وفاق پاکستان گلگت بلتستان کو فیڈریشن میں شامل چاروں صوبوں سے ہٹ کشمیر کونسل کے زریعے گلگت بلتستان کا نظام چلاتے ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ میں شامل کرنے کی بار بار مطالبے کے باوجود فیڈریشن کا قانونی، آئینی حصہ نہ ہونے کی وجہ سے  این ایف سی کا حصہ نہیں بن سکتا جس کے سبب گلگت بلتستان میں وسائل کے کوئی حساب کتاب والا ادارہ موجود ہی نہیں۔ سوسٹ  ڈرائی پورٹ، دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی، دریائے سندھ کی رائلٹی،معدنیات،گلیشیرز، کے ٹو  کی رائلٹی کیلئے عالمی طور وضع قوانین  کے مطابق  حقوق مانگنے کی بھی گلگت بلتستان اسمبلی سکت نہیں رکھتے۔اسی طرح بلواسطہ بلاوسطہ ٹیکسوں کی وصولیاں بھی گلگت بلتستان خزانے میں جمع نہیں ہوتے۔ لیکن گرین ٹورازم نامی جو دور جدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے،کی سہولت کاری کیلئے عہدے اور اختیارات کا بُری طرح ناجائز استعمال ہورہا ہے۔ یعنی اس وقت گلگت بلتستان حکومت ہندوستان کے اُس اقدام پیروی کر رہا ہے جب ہندوستان کی جانب سے 5 اگست 2019 کو اقوام متحدہ کے قرادادوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں کشمیر لداخ میں آرٹیکل 370 کا  خاتمہ کیا۔ پاکستان اُس اقدام کا ہر فورم پر احتجاج اور مذمت کرتے ہیں،یعنی  گلگت بلتستان اسمبلی مسلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی مخالفت کرتے ہوئے متنازعہ خطے کی جعرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے باقاعدہ سہولت کار بن گیا ہے جو کسی بھی طرح نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ گلگت بلتستان کے۔ لہذا ضرور اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں سلامتی کونسل کے قرارداد 13 اگست 1948 پر عملدرآمد کرکے لوکل اتھارٹی گورنمنٹ کی قائم کریں اور مقامی اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ دیں۔ اس کے بعد سرمایہ کاری کیلئے سٹیٹ سبجیکٹ رول کی روشنی میں غیر مقامی کمپنیوں کیلئے سرمایہ کاری اور سکونت کیلئے طریقہ کار وضع کریں۔

کیونکہ  آئین پاکستان اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ موجودہ پوزیشن میں پاکستان معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کی روشنی بطور انتظامی ذمہ دار اس خطے میں موجود ہیں پھر کس طرح اس خطے کی زمینیں اور اثاثوں کا بندر بانٹ کیا جاسکتا ہے؟۔ معاہدہ کراچی کے بارے میں خبریں میڈیا پر آچکی ہے کہ اُس معاہدے پر سردار ابراہم کا دستخط جعلی تھا اور اس بات اقرار اُنہوں نے اپنی زندگی میں کی تھی۔ لہذا  تین ایٹمی ممالک  کے سنگم پر واقع گلگت بلتستان کے حوالے سے فیصلہ سازوں کو سوچ بچار کرنا ہوگا۔ اس خطے کی 76 سالہ سیاسی،معاشی،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا قانون کے مطابق ازالہ کرنے کے بجائے غیر معروف کمپنی کو ٹینڈر کیلئے ملک میں وضع قوانین اور اصولوں کو مکمل طور پر سلب کرکے  گلگت بلتستان پر معاشی یلغار کی کوشش کو اس خطے کے عوام قبول نہیں کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گلگت بلتستان میں شدید احتجاج جاری ہے اور ایک غیر معروف کمپنی ریاستی حیثیت کی طرح عوامی خدشات اور احتجاجات کو نظر انداز کرکے مسلسل ایک نوٹفیکشن کی بنیاد پر عوام سے اُلجھ رہا ہے۔جس کا نتیجہ بھیانک نظر آتا ہے اور حال ہی میں  آذاد کشمیر میں ہونے والا خونی احتجاج ایک مثال ہے کیونکہ آذا د کشمیر اور  گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت ایک ہے۔لہذا ہوش کے ناخن لینا چاہئے۔

گلگت بلتستان کے لوگوں کا پاکستان کیلئے قربانیاں ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا سرحدوں کی حفاظت گلگت بلتستان کے سپوت صف اول کا مجاہد ہوتا ہے جس کی مثال لاک جان شہید ہے جس نے پاکستان کیلئے کرگل کے پہاڑوں پر جام شہادت نوش کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گلگت بلتستان کے درجنوں جوان شہید ہوچُکے ہیں اُن سرزمین کو چراگاہ سمجھ کر سیاسی،معاشی،ثقافتی یلغار کے روش کر ترک کرکے 76 سالہ محرومیوں کا ازلہ کرنےکی کوشش کریں۔کیونکہ نوجوان نسل اب مسلسل سوال کر رہا ہے کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوگیا اور مسلسل ہورہاہے۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button