متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم کی آبادکاری کا معاملہ الجھنے لگا، ضلعی انتظامیہ اور واپڈا حکام بھی پریشان ہوگئے
چلاس(بیورورپورٹ)دیامر بھاشہ ڈیم متاثرین کی آبادکاری کا مسلہ طول پکڑنے لگا ،متاثرین ڈیم آبادکاری کے معاملے پر تقسیم ہوگئے،ضلعی انتظامیہ اور واپڈا حکام بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔گزشتہ ایک سال سے دیامر بھاشہ ڈیم متاثرین کی آبادکاری کیلئے حکومتی سطح پر کوشیشں جاری ہیں اس حوالے سے کئی دفعہ حکومت اور واپڈا کے ساتھ ڈیم متاثرین کی میٹنگز بھی ہوئی ہیں ، اس حساس اور بنیادی مسلے کے حل کیلئے واپڈا اور ضلعی انتظامیہ کے مابین بھی درجنوں اجلاس ہوچکے ہیں لیکن کوئی مثبت حل ابھی تک نہیں نکل سکا ہے۔متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم مختلف گروپس میں تقسیم ہوگئے ہیں اور آبادکاری کیلئے ابھی تک ایک پیج پر دیکھائی نہیں دے رہے ہیں ،متاثرین کے مابین اختلافات کی وجہ سے واپڈا اور ضلعی انتظامیہ کے زمہ داربھی کوئی اہم قدم اُٹھانے سے قاصر دیکھائی دے رہے ہیں ۔متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم سونیوال قبائل ہرپن داس ماڈل کالونی کے علاوہ کہیں اور بسنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،جبکہ متاثرین ڈیم بٹوخیل بھی ہر پن داس میں آبادکاری کے خواہاں ہیں ،اتنے زیادہ متاثرین کو صرف ایک جگہ سٹل کرنا ممکن نہیں ہے ،ادھر متاثرین ڈیم تھک نیاٹ اور بابوسر کہتے ہیں دیامر کی اراضیات قبائیلی تنازعات کا شکار ہیں اس لیئے متاثرین ڈیم کو ڈاون کنٹری میں آباد کیا جائے یا نقدی پیسے دیئے جائیں تاکہ متاثرین اپنی مرضی کے مطابق سٹل ہوسکیں،متاثرین گوہر آباد کی ایک بڑی تعداد بھی گوہر آباد میں سٹل ہونے کی خوائش رکھتی ہے لیکن ماڈل ویلیج کیلئے مناسب زمین دینے کیلئے تیار دیکھائی نہیں دے رہی ہے اور ایک بڑی تعداد اسلام آباد میں سٹل ہونا چاہتی،چلاس کھنر،ہڈور اور تھور کے ڈیم متاثرین کی بڑی تعداد نقدی پیسہ یا اسلام آباد میں آبادکاری کی خوائش رکھتے ہیں ، متاثرین ڈیم کا ایک ایجنڈے پر مکمل اتفاق کے ساتھ سامنے نہ آنے کی وجہ سے حکومت،واپڈا اور ضلعی انتظامیہ کو کافی مشکلات کا سامنا ہے ،اگر حکومت نے تمام متاثرین کو دیامر میں آباد کرنے کیلئے حامی بھری تو حکومت کو اراضی نہیں ملی گی ،کیونکہ دیامر کی تمام اراضیات قبائیلی تنازعات کا شکار ہیں اور تمام اراضیات کے کیسس عدالت میں ہیں ،دیامر میں متاثرین ڈیم کیلئے ماڈل ویلیجز کی تعمیر اس لیئے ناممکن ہے ،چونکہ اگر حکومت نے کسی قبیلے پر زبردستی کرکے ماڈل ویلیج تعمیر بھی کیا تو کل کلاں متاثرہ قبیلہ کسی صورت اپنی زمین کا دفاع کیئے بغیر نہیں رہے گا ،کیونکہ دیامر کے لوگ قبائیلی رسم ورواج رکھتے ہیں اور کسی صورت ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔حکومت کو چاہے کہ وہ متاثرین ڈیم کی آبادکاری کیلئے ڈاون کنٹری میں زمین لیں اور دیامر ڈیم کے تمام متاثرین کو وہاں شفٹ کریں یا نقدی پیسہ دے کر آبادکاری کا مسلہ حل کریں اور ڈیم پر کام کا آغاز کیا جائے،کیونکہ پاکستان میں پانی کی کمی کی وجہ سے ڈیموں کی تعمیر فرض بن چکا ہے،اگر بروقت ڈیمز کی تعمیر یقینی نہیں بنایا گیا تو پاکستان میں قحط سالی کا خطرہ ہے۔