بزور بازو چترال بازار کو بند کرنا کیا کسی ساز ش کا حصہ تو نہیں ؟
22 جولائی 2018 ء بروز اتوار کو اچانک چترال بازار مکمل طور پر بند ہوتا ہے ، ہوٹل سے لے کر تندور تک ہر ایک دکان پر صبح سے شام تک تالا لگا کے رکھا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے مسافروں ، سیاحوں اور سیاسی کارکنوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہم نے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ بازار کے صدر اور کابینہ کی جانب سے باقاعدہ طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ اتوار کو ایک بھی دکان نہیں کھلے گی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں دکاندار کو جرمانے کی دھمکی دی گئی ۔ کاروباری حضرات اس حوالے سے مختلف قسم کی توجہہ پیش کررہے ہیں ۔ لیکن خاکسار گزشتہ تین چار ماہ سے چترال ٹاون میں رہائش پزیر ہے لیکن ان چار مہینوں میں کبھی بھی چھٹی کے نام پراس قسم کی شٹر ڈاون ہڑتال نہیں ہوئی پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن سے عین تین دن قبل اتنی سخت شٹر ڈاون کیوں کیا گیا؟اور کیا وجہ ہے کہ بازار کابینہ کی جانب سے کاروباری طبقات سے چھٹی کے نام پر سختی برتنے کا اشارہ دیا گیا ۔؟
اس چھٹی بلکہ غیر اعلانیہ ہڑتال سے نہ صرف سیاح رل گئے بلکہ مختلف جماعتوں کے سیاسی کارکنان بھی اس سے بری طرح متاثر ہوگئے، چترال بازار میں پینے کو پانی اور کھانے کو ڈبل روٹی بھی نہیں مل رہے تھے ،اس حوالے سے مختلف قسم کی چہ می گوئیاں ہورہی ہے ، ایک سازشی مفروضہ یہ چل رہا ہے کہ اتوار 22 جولائی کے صبح 10 بجے پی ٹی آئی نے پولو گراونڈ چترال میں انتخابی جلسے کا اہتمام کیا تھا یہ سب کچھ اس جلسے کو ناکام بنانے کی سازش تھی،جبکہ بعض شیڈول جلسے منسوخ کئے گئے۔اس کے علاوہ یہ بھی اہم سوال ہے کہ چند افراد کی جانب سے نظام زندگی مفلوج کردینا کیا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف نہیں؟ ضلعی انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی ایجنسیز کو چاہئے کہ وہ اس ساری لاقانونیت کی تحقیقات کرائے بصورت دیگر ریاست کے اندر ریاست بنا کے کسی بھی وقت کوئی بھی بندہ پھر سے نظام کو مفلوج کرسکتا ہے۔