بدصوات کے متاثرین
تحریر: محمد ایوب
سترہ جولائی کو بد صوات گلیشئر ٹوٹنے سے گاوں بد صوات اور بلہنز کے چالیس سے زیادہ گھرانے متاثر ہوئے ۔بلہنز کے اٹھ گھر سیلاب کی زد میں آکر مکمل طور پر مٹ گئے ،جبکہ بدصوات کے پینتیس گھرانوں نے اپنے گھروں کو اس مضنوعی جھیل میں ڈوبتے ہوئے دیکھا ،جو انہوں نے کبھی محنت اور مشقت سے بنایا تھا ۔کیا گزرتی ہوگی جب انسان اپنے آنکھوں کے سامنے اپنا گھرجو اس نے محنت اور مشقت کی کمائی سے تعمیر کیا تھا پانی میں ڈوبتے دیکھتا ہے یہ وہی لوگ بیان کرسکتے ہیں جن پر گزری ہے ۔اس بہت بڑے حادثے میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ لیکن اس غربت زدہ علاقے میں گھروں کا سامان سمیت ڈوب جانا بھی ایک معاشی موت ہے ۔یہ علاقہ کتنا غربت کا شکار اور پسماندہ ہے اس پر ایک الگ کالم لکھا جاسکتا ہے ۔ اس حادثے کے بعد فوری طور پر ضلعی انتظامیہ ،پاک آرمی اور آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے وہاں پہنچ کر لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا ،خوراک ادویات اور تمام ضروری امدادی سامان پنچا دیا گیا ۔بعدازاں پریس کلب غذر ،سوشل ولفئر ڈیپارٹمنٹ ،اور زکواة کے تعاون سے بھی امدادی راشن پہچادیا گیا ۔ ان امدادی کاروائیوں میں مختلف این جی اوز ،مقامی رضاکاروں اور بوائے سکاوٹس بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس دوران چٹورکھنڈ سے تعلق رکھنے والے طالب علم حسنین جو امدادی سامان چھوڑ کر واپس آتے ہوئے راستے میں حادثے کا شکار ہوگئے اور جان کی بازی ہار گئے ۔متاثرین کی امداد میں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آئی، تحصلدار اشکومن خالد انور ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر جی بی ڈی ایم اے میر افتاب فوکس پاکستان کے پروگرام آفسر صاحب جان ،میدیکل آفسر ڈاکٹر مصطفی آغاخان ہیلتھ سروس کی میڈیکل ٹیم سمیت دیگر سرکاری ادروں کے اہلکار شروع دن سے بلنز کیمپ میں موجود ہیں ۔راقم نے متاثرین سے امداد کے حوالے سے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ امداد سے ہم مطمئن ہیں سب کچھ دیا ہے مگر گھر نہیں ہے ہم پاک آرمی ڈپٹی کمشنر غذر اور اے کے ڈی این کے مشکور ہیں جو ہمارا سہارا بنے۔ ڈپٹی کمشنر ہر دوسرے دن آتا ہے اور انتظامات کا جائزہ لیتا ہے ۔ ہر درپیش مشکل مسائل کو حل کرنے کی یقین دلاتا ہے ۔لیکن ہم فکرمند ہیں ہم پریشان ہیں ان خیموں میں کب تک مفت کا کھائنگے حکومت ہماری مکمل آباد کاری کے لئے اقدامات کریں ۔ یہ یقیناً پریشانی کا باعث ہے لوگ اتنے غریب ہیں کہ انہوں نے گندم بھی اس معاہدے کے تحت حاصل کی ہے کہ ان کا الو تیار ہوجائے اور وہ الو بھیچ کے آٹے کا قرضہ اتار دینگے ۔لوگ سخت ڈپریشن کا شکار ہیں اور کیوں نہ ہو جب زندگی بھر کی محنت اور کمائی ڈوب جائے جب ہنستا بستا خاندان متاثرین میں شامل ہو کر ٹنٹ میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوجائے تو انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ کیا وہ لوگ اب دوبارہ گھر بنا سکتے ہیں تو شاید جواب نا میں ہی ہوگا ۔حکومت کو چاہئے کہ متاثرین کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ان کے لئے فوری طور پر شلٹر بنواکر وہاں شفٹ کریے ۔دوسرا بہت بڑا چیلنج یہ ہے کہ بد صوات سے آگے کا علاقہ جو تین سو گھرانوں پر مشتمل ہے کا زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے ۔ان علاقوں تک گندم کی ترسیل ہیلی کاپٹر پر کرنا ہے ۔ ضلعی انتظامیہ کو چاہئے کہ ان علاقوں کا گندم کوٹہ گاوں بلہنز میں سٹور کریں تاکہ وہاں سے باآسانی اگلے علاقوں تک پہچایا جا سکے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہے