کالمز

ادب پارے: آزاد امیدوار

سیاسی حلقوں میں جتنے بھی امیدوار ہوتے ہیں ان میں سے گنے چنے لوگ ہی آزاد ہوتے ہیں۔ اصلاً کسی قسم کی غیرگروہی وابستگی ہی آزادی ہے۔ کیوں نہ اس سے یہ فال نیک و بد نکلے کہ جوامیدوار جماعتی وابستگی رکھتے ہیں وہ آزاد نہیں ہوتے۔یوں امیدواروں کی دو قسمیں ہوئیں۔ اول وہ جوآزاد نہیں ہوتے اور دوئم وہ جو آزاد ہوتے ہیں۔جمہوریت میں ہم نے دونوں قسم کے امیدواروں کو محض جیت کی خاطر امیدوار ہوتے دیکھے ہیں ۔ اگرچہ ہر دو امیدوار صرف ہار کی صورت میں ہی امیدوار رہتے ہیں اور جیت ایک امیدوار کوپرُامید اور ووٹرزکو امیدوار بنادیتی ہے۔امیدوار اورووٹرز میں امید کا رشتہ فقط اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے جتنا امیدوار کا انتخابات کے نتیجے کے ساتھ۔ یعنی اپنے حق میں آیا تو درست اور اپنے خلاف آیا تو غلط۔بہرحال یہ ایک جمہوری عمل ہے اور عوام اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ فی زمانہ بادی النظر میں ایسا لگتاہے کہ جو لوگ ووٹ دیتے ہیں وہ یا تو امیدوارکو اچھی طرح جانتے ہیںیا پھر جمہوریت کو بالکل نہیں جانتے وگرنہ امیدواروں سے ناآشنا اور جمہوریت سے آگاہ لوگوں کو اس جھنجھٹ سے دورہی دیکھے ہیں۔کچھ لوگوں کی ٹیڑھی نظروں میں وہ لوگ جمہوری نہیں ہوسکتے جو اس عمل میں شامل نہیں ہوتے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جمہوریت کو جانتے نہیں۔ کیونکہ اس عمل میں کسی نہ کسی کے لئے ہاں ہی کرنا ہے اور سب کو ناں کرنے کا کوئی آپشن ہی نہیں اس لئے وہ اس عمل سے دور ہیں۔ اگر یہ آپشن بیلٹ پیپرز پر دے بھی دیں تو بھلاسب کو ناں ہی کرنا ہے تو دن بھر لائنوں لگنے کی کیاضرورت ہے، سرے سے ہی اس عمل میں شامل نہ ہوں توعین یہی وضاحت بن جاتی ہے۔ آزاد امیدوار اپنے خرچے پر الیکشن لڑتا ہے اس لئے اسے ملنے والے ووٹ اور پڑنے والی گالیاں دونوں خالص ہوتے ہیں جبکہ جماعتی وابستگی سے لڑنے والے کو ٹکٹ تو مل مفت ہاتھ آ جاتاہے لیکن گالیاں اور الزامات بھی مفت گلے پڑ جاتی ہیں جو جماعتی اختلاف اور کمزوریوں کی بنیاد پر پڑتی ہیں۔آزاد امیدوار عمومی امیدوں سے آزاد ہوتا ہے اس لئے اسے ہمدردی کے ووٹ بھی زیادہ پڑتے ہیں ۔اس کا منشور بھی اپنے جھنڈے کی طرح ہر گلی میں بدلتا رہتا ہے اس لئے ایسے امیدواروں کو لچکدار طبیعیت کے سمجھے جاتے ہیں۔آزاد امیدوار غیر جماعتی وابستگی کی بنیادپر دوسرے امیدواروں کی نسبت زیادہ مصروف شخص ہوتا ہے کیونکہ اسے جماعتی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوتا اور اسے ایک بے ضرر سیاسی کارکن سمجھا جاتا ہے اس لئے وہ زچگی، فوتگی، ختنگی، رسم قل سے لیکر حلوائی، نان بائی یانائی کی دکان کے افتتاح جیسی خالص عوامی تقریبات میں مدعو ہوتے ہیں۔آزاد امیدواروں کی جیت کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی نظر آئی ہے کہ جماعتی وابستگی رکھنے والے امیدوار کوپارلیمانی سطح پراپنے پارٹی مخالفین کے بارے میں شعلہ بیانی کرکے پارٹی ٹکٹ کاحق اداکرنا پڑتا ہے اور عموما ایک ہی حلقے میں دومضبوط پارٹیوں کے امیدوار وں کی موجودگی انہیں ایک دوسرے میں الجھائے رکھنے کا سبب بنتی ہے اس لئے حلقے میں اس کا مخالف آزاد امیدواردوسروں کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسی لئے وہ ذہنی اور نفسیاتی دونوں طور پر صحت مند رہتے ہیں خاص کر ان کا فشارخون کنٹرول میں رہتاہے۔اس کے علاوہ وہ ان دونوں جماعتوں کے خلاف دل کھول کر لب کشائی کرتے ہیں۔ دوطاقتور جماعتوں کے درمیان تنازعات تو معمول کی بات ہوتی ہے ایسے میں آزاد امیدوار ثالث کا کردار ادا کرکے اپنا سیاسی قد بھی بڑھاتا ہے۔آزاد امیدوار کے پاس یہ بھی چناو بھی موجود ہوتا ہے کہ عین انتخابات کے دنوں میں جس بھی حریف کا پلہ بھاری نظرآیا اسی کے حق میں دست بردار ہوکرحلیف بنوالیا۔یوں اچھی ضیافت کے ساتھ کچھ خرچہ پانی کا بندوبست کرسکتا ہے جبکہ یہی کام کسی جماعتی وابستگی کے حامل امیدوار سے ہو تو اسے لوٹا کا خطاب مل جاتا ہے۔ حکومت جس جماعت کی بھی آئے آزاد امیدواروں کواس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی اس لئے بیکار کے دنوں میں انہیں کارسرکارمیں کوئی کوئی ٹھیکہ مل جاتا ہے وگرنہ جماعتی وابستگی کے حامل امیدوار تو مخالفین کے دورحکومت میں پانچ سال کے لئے مکمل بیروزگار ہوجاتے ہیں۔ آزاد امیدوار کی غیرسیاسی وابستگی اسے مہمانوں کی شہہ خرچیوں، دیگر حلقوں سے حلیف جماعت کے امیدواروں کے دوروں اور حلقے کی سطح پر ہونے والی میٹنگوں میں شرکت پر آنے والے اخراجات سے بھی مستشنیٰ دیتی ہے۔ آزاد امیدواروں کی ہار جہاں قدرے کم دلگیر و مشقت آزما نہیں ہوتی ہے وہاں ان کی جیت حکومت سازی میں ان کی قدروقیمت میں بیش بہا اضافہ کردیتی ہے۔ پارلیمنٹ میں دو بڑی جماعتوں کی برابری ان کی فوری شہرت کی باعث ہوتی ہے ۔ اس موقع پر ان کی فوری دستیابی قیمت میں خاطرخواہ کمی کی سبب بن سکتی ہے اس لئے وہ یوں منظر سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے جاڑے میں مینڈکیں۔ بسا اوقات کسی ایک جماعت کے ہاتھ لگنے کی صورت میں حریف جماعتوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی خاطر انہیں ناقابل رسائی حد تک پنہاں رکھتے ہیں تاکہ عین پولنگ کے وقت پر سیدھا پولنگ سپاٹ پر پہنچایا جاسکے اور حریف جماعتوں کی ممکنہ ہائی جیکنگ سے بچایا جاسکے۔ آزاد امیدوار کی ایک اور فضیلت انتخابی نشان کے چناو میں ہے۔ مقررہ جماعتی انتخابی نشانات کے علاوہ دستیاب نشانات میں سے کسی کا بھی انتخاب امیدوار کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے۔ اس کا انتخاب بھی فلسفے سے خالی نہیں ہوتا۔ جیپ کے ساتھ جدت اور سہولت، قلم کے ساتھ جہاد بالقلم، قلفی کے ساتھ ٹھنڈمزاجی، ماچس کے ساتھ تند وتیزی، ہاکی کے ساتھ مضبوط سہارا ، اور چھتری کے ساتھ سایہ و شفقت کے نعرے بھی جوڑلیتے ہیں اور تو اورجدید سہولیات اور ایجادات کے اس دور میں لالٹین کے نشان کو بڑھاوا دینے کے لئے ایسے ایسے نعرے جوڑ لیتے ہیں کہ شعراء دھنگ رہ جاتے ہیں۔ عموماً لالٹین کے ساتھ ساتھ روشن خیالی، لوڈشیڈنگ کا توڑ ، عرق مزدور سے پھیلائے روشنی اور اندھیروں کے خلاف اعلان جنگ جیسے بلندوبانگ نعرے بلند کرتے ہیں۔ آزاد امیدواروں کے لئے موزوں سیزن ضمنی انتخابات کا وقت ہوتا ہے خاص کر ان نشستوں پر جس پر کسی جماعتی بنیاد پر زائد حلقوں سے لڑکر خالی کی گئی ہو۔جب یہ نشست ایوان کے حزب اختلاف میں پہنچنے والے کسی نمائندے کی طرف سے خالی کردہ ہو تو ان کی گویا چاندی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح ووٹرز عزت بچانے اور امیدوار اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ آزاد امیدوار کی اہمیت کسی دشوار گزار رستے پر پنکچر ہونے والی گاڑی کے اس فاضل پہیئے کی سی ہے جسے لگائے بغیررواں پہیئے بھی اپنا کام چالو نہیں کرسکتے۔ یہ وہ مشکل وقت ہوتا ہے جہاں اس کا معمولی سہارا بھی غنیمت ہوتاہے۔ جیسے بھی ہو، آزاد امیدوار بھی جمہوریت کا ایک حسن ہے۔ تاہم ان کا مشروط جماعتی الحاق حزب اختلاف کو ہمیشہ سے کھٹکا ہے۔ اس لئے ان کے رضاکارانہ الحاق کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں اور یہی توقع کی جاتی ہے کہ نظریہ ضرورت کے پیش نظر انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر خوب مال بنایا ہوگا، عہدہ و اہمیت کی شرط رکھی ہوگی یا پھر علاقائیت ، مذہبی ہم آہنگی وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی موجود گی سیاسی کشمکش میں ایک حسن پیدا کرتا ہے اقلیت ہو یا اکثریت ان کا فیصلہ طرفین کو خوب تذبذب میں ڈال دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان آزاد منتخب اراکین کی شفاف رائے دہی کے لئے بھی کوئی طریقہ کار وضع ہوتا جس میں طرفین سے کسی ایک پر بیجا دباو، رشوت یا مالی لین دین یا دیگر وابستگیوں کو بنیاد بناکر الحاق کرنے کوروکا جائے اور مکمل طور پر نظریاتی بنیادوں پر ہی ان کی شمولیت یا الحاق کے قائدے مرتب ہوتے۔ تاہم یہ خدشہ جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والے اراکین کی رائے دہی میں بھی نہ صرف موجود ہوتی ہے بلکہ کسی نہ کسی جماعت کے ممبر کی رائے اپنی پارٹی کے امیدوار کی بجائے مخالف امیدوار کو پڑنے کی روایت بھی موجود ہے۔ آخر کار یہ بھی جمہوریت کا نظام ہی آزادی اظہار رائے ہی تو ہے جس میں بندہ کسی بھی طور سے پابند نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کی رائے نہ دے سکتا ہو۔بس ہر کسی کااپنا ایمان ہے۔ ہارجیت جمہوریت کا حسن ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہارنے والا اپنی ہار تسلیم کر لیتا مگر حیف ہے کہ شکست خوردگی کا صدمہ اس جذبہ یکجہتی پر اس قدرحاوی ہوتا ہے کہ اپنی انا کی خاطر اپنی شکست کی وجہ نظام یا نظام چلانے والے عملے کو قرار دیتے ہیں جس کے لئے کسی بھی ناکافی دلیل یا کمزور شواہد کو بھی کھنگال کھنگال کر روئی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ آخر ایک عوامی نمائندے کے لئے انتخابات جیتنے سے زیادہ عوام کا دل جیتنا ضروری ہے جو مکاری اور پرکاری سے ممکن نہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button