چیف جسٹس صاحب ایک نظر ادھر بھی
بشیر حسین آزاد
چیف جسٹس آف پاکستان کے قوت فیصلے کو داد ہو کہ آپ نے کئی ایسے فیصلے کیے جو تاریخ ساز ہیں ۔ان کی اس جرات اور قوت فیصلے سے مظلوموں ،مقہوروں اور محروموں کی داد رسی ہوتی ہے ۔۔انصاف میں قوم کی احیا ء ہے اور انصاف ہی زندگی ہے ۔۔چیف جسٹس آف پاکستان نے جب ڈیم بنانے کا تہیہ کر ہی ڈالا تو اچھا لگا کہ وہ کام جو ملک کے حکمران کو کرنا چاہیے تھا وہ ملک کا قاضی القضات کرنے جا رہا ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انصاف زندہ ہے اور عدل کا بول بالا ممکن ہے ۔۔جہاں ممکن باندھی جاتا ہے وہاں توقعات بڑھتی ہیں ۔۔اس لئے چیف جسٹس سے توقعات بڑھ گئی ہیں ۔چھوٹے موٹے مگر نہایت اہم سماجی مسائل جن کی وجہ سے عام آدمی عذاب میں مبتلا ہے ۔توقع رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب ان مسائل کو ضرور حل کرینگے ۔یہاں تک عضب کی توقع کہ بازار میں سبزی دال کی قیمت ،ٹیکسی کے بے جا کرائے ،بھتہ، کمیشن ،رشوت تک کی بندش کا انتظار کیا جاتا ہے ۔۔ملک خداداد میں اداروں کے اندر بے ترتیبی کا بہت بڑا اثر عوام پہ پڑتا اور عوام ہی اس کا شکار ہو جاتے ہیں ۔بڑے کاموں کے لئے ہمت کرنا اور ارادہ کرنا اپنی جگہ لیکن چھوٹے مسائل کے حل میں کردار ادا کرنا فلاحی ریاست کا فرض بنتا ہے ۔۔چترال میں گولین گول پاور ہاوس کا ایک سوچھ میگاواٹ کا بجلی گھر تعمیر ہو چکا ہے ۔۔حکومت وقت نے چترال کے لئے چھتیس میگاواٹ کا خصوصی پیکیج دیا ہے۔۔عوام مسلسل لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بچنے کا خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں لوڈ شیڈنگ کا عذاب وہی ہے ۔۔کیونکہ اس کے بعد بھی بے غیر وجہ بتائے لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔۔اس پہ مستہزاد کہ بے غیر ریڈنگ کے بجلی کے بل دگنا آتے ہیں ۔۔متعلقہ ذمہ داروں سے پوچھنے پر کہتے ہیں ۔۔اوپر سے بھیجے گئے یونٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے بے غیر میٹر ریڈنگ کے بل بھیجنا ہماری مجبوری ہے ۔اورمحکمہ میٹر ریڈروں کی کمی کا رونا روتے ہیں۔خرچے کا ہدف یہ ہے ۔۔میٹر کی ریڈنگ بھی درست نہیں آتی ۔۔عوام بل کی ادایئگی نہیں کرسکتے ایک معمولی مزدور کو مہینے کا بل سات ہزار سے پندرہ ہزار روپیہ تک آتا ہے لوگ یہ بل اُٹھائے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ،دادرسی کہیں سے نہیں ہوتی ۔۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بجلی کا یہ محکمہ اپنی من مانی میں آزاد ہے اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں کیا انتظامیہ اس کے سامنے بے بس ہے؟ ۔کیا عوام اس کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کہ اپنی فریاد تک کہیں نہیں پہنچا سکتے ؟۔اگر ایسا ہے تو اس صورت حال میں چیف جسٹس ہی اُمید کی وہ کرن ہے جو ظلم کے اندھیروں کا چراغ بن سکتی ہے ۔۔چترال کی عوام چیف جسٹس سے سراپا سپاس اور اپنی فریاد لے کے حاضر ہیں کہ ان کو اس عذاب سے نجات دلائی جائے ۔۔چیف جسٹس صاحب ازخود نوٹس لے کیونکہ اس پسماندہ علاقے میں انتظامیہ بے بس نظر آتا ہے کہ محکمہ واپڈا(پیسکو)اپنا قبلہ درست کرے ۔۔عوام کوبے جا لوڈشیڈنگ اور ہوشربا اور ناقابل ادائیگی بلوں سے نجات دے ۔۔یہ ارباباں اقتدار اور اختیار دونوں کے لئے چلینج ہے کہ علاقے میں بجلی ہوتے ہوئے بھی عوام کو اس سے محروم رکھا جا رہا ہے اور اس کو تنگ کیا جا رہا ہے ۔۔عوام اپنی سطح پہ کئی دفعہ سراپا احتجاج بھی بنے مگر ان کی فریاد صدا بہ صحرا ہو گئی ۔اس لئے اب معاملہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ۔محکمے کے زمہ داروں کے ناروا سلوک مذید جلتی پہ تیل ہے۔۔فلاحی ریاست میں عدلیہ جیسا ادارہ بھی اگر کسی ظلم اور ناروا سلوک کو روکنے کی اہلیت نہ رکھے تو پھر اس اندھیر نگری میں کس کو دھائی دی جا ئے ۔۔ملک خدادا میں جمہوری حکومت آرہی ہے انشا اللہ جمہوریت کے ثمرات سے غریب عوام مستفید ہوگی ۔۔چیف جسٹس کی آواز ایک مرد آہن کی آواز ہے اور انصاف کے صحرا میں تازہ ہوا کی مانند ۔۔