تحریر: شمس الحق قمرؔ بونی
میرمحمد خان صاحب کا تعلق بونی کروئے جنالی سے ہےاصل نام میر محمد خان جبکہ پیار سے گھر اور محلے لے لوگ آپ کو مِیری مِیری کہتے نام ہی مِیری پڑ گیا ۔ میر محمد خان اسی میری نام سے مشہور اور معروف ہیں۔ یہی کوئی چالیس پینتالیس سال کی عمر ہوگی ،مضبوط قد کاٹھ ، چہرے کے عمومی خدو خال کی نسبت سے قدرے مختصر مگر کِھلتا ہوا دَہن ، بیصوی اور سنجیدہ رخسار پر ہلکی پھلکی مگر خوش ائند شرارت سے لب ریز آنکھیں ۔ شادی اور بچوں کے حوالے سے مجھے کسی نے کوئی معلومات نہیں دیں اور موصوف سے پوچھنا میں نے خود مناسب نہیں سمجھا ۔ لیکن مجھے امید واثق ہے کہ وہ صرف شوہر ہی نہیں بلکہ کئی ایک بچوں کے باپ بھی ہوں گے ورنہ موصوف جیسے یار باش آدمی کو دکان چلانے اور تلاش معاش میں سرگردان رہنے کی کہاں ضرورت ہوتی ہے ۔ غالبؔ نے ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوکر کہا تھا ؎ فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں میں کہاں اور یہ وبال کہاں ۔
اس بارمیرمحمد خان میری صاحب سے میری ملاقات بونی بار کی پشت پراُن کی چھوٹی سی دکان میں ہوئی ۔ جب ہماری ملاقات ہو رہی تھی تو میری نظر اُن کی دکان کی آرائش پر جا مر کوز ہو ئی تھی ، دکان میں ہر قسم کی صاف ستھری سبزیاں اور پھل فروٹ سجے تھے ۔میں نے بغیر اجازت کے مٹھی بھرخشک کشمش اُٹھائی اور رسمی بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا یہ اکتیس جولائی سن دوہزار آٹھارہ ، بروز منگل اور بعمل دن بارہ بج رہے تھے ۔
میری صاحب صبح ۸ بجے سے شام ۸ بجے تک سخت محنت مشقت سے رزق حلال کماتے ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اپنا حلیہ ہمیشہ سے شاہانہ طرز کا رکھا ہوا ہے۔ مجال کیا کہ غلطی سے بھی دامن یا گریبان کی کسی تہہ میں دن بھر کی مشقت کی پسینے کے میل کا کوئی نقطہ نظر آئے، شلوارقمض انتہائی سلیقے کی استری کی آئینہ دار ہیں اورجوتوں کی پالش اتنی چمکیلی دیکھنے والے کہ نظریں چندھیا جاتی ہیں۔ چونکہ آپ کی دکان سول جج کے دفتر متصل ہے لہذا اس علاقے میں وکلاٗ اورعدالتی متاثرین منڈلاتے رہتے ہیں ۔ مجھے میری صاحب کی خوش پشاکی وضعداری کا اُس وقت بڑا لطف آیا جب سیشن جج کی عدالت میں پیشی کے لئے آئے ہوئے دو افراد میرمحمد خان مِیری صاحب کو وکیل سمجھ کر آپ کی طرف لپکے ۔ اپنے تن بدن کو ہمیشہ صاف اور شفاف رکھنا میرمحمد خان میری کی طبیعت کا خاصا ہے ورنہ اس پیشے میں اچھے اچھوں کی بر کھس نکلتی ہے۔ موصوف کی بات چیت کا انداز بھی بازار کے دوسرے لوگوں سے مختلف ہے ۔ موصوف کو ملنے والا چاہے اُس کا اپنا گاہک ہو، رشتہ دار ہو یا کوئی عام راہگیر، سب سے انتہائی تعظٰیم کے ساتھ ملتے ہیں اور پر خلوص مصافحہ کرتے ہیں ۔ مِیری سے میری ملاقات اسی جولائی کے آخری ہفتے سر بازار ایک اتفاق کی بات تھی ۔ سلام کے بعد انہوں نےمجھ پر جوش مصافحہ کیا اور کہنے لگے ’’ صاحب ایک گزارش ہے اور مجھے اُمید ہے کہ آپ میری درخواست پر غور کریں گے‘‘ میں نے سمجھا کہ میں گلگت میں رہتا ہوں شاید کاروبار کے حوالے سے کوئی بات ہو گی ، دل ہی دل میں بڑا پریشان ہوا کہ اب اِن صاحب کے لئے گلگت کی مارکیٹوں کو چھان مارنا کتنی اذیت ناک اور تکلیف دہ بات ہوگی بہر حال دل پر پتھر رکھ کر میں نے کہا ’’ ارشاد فرمائیے ، سر آنکھوں پر ‘‘ بولے ،’’ میں نیٹ پر آپ کے کالم اور ڈائری دیکھتا اور پڑھتا رہتا ہوں ، آپ گزشتہ کئی عشروں سے بونی سے گزرنے والی اس سڑک کو ملاحظہ کر رہے ہیں ۔ کیا اس پر لکھا جا سکتا ہے ؟‘‘ موصوف نے بات کچھ اس ادا سے کی کہ گویا یہ اُن کا ذاتی کام تھا ۔ میں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ایک چھوٹی سے دکان ہے سڑک ہو نہ ہو آ پ کا کام تو چلتا رہیگا ،آخر آپ کو اس سے بہتر سڑک کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے ؟ انہوں نے جواباً کہا کہ بات تو آپ کی درست ہے لیکن میں اپنے حوالے سے بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہ ایک اجتماعی فائدے کی بات ہے۔ اس سڑک سے عشروں سے گرد و غبار اٹھتا رہا ہے اس گردو غبار سے نہ صرف بازار اور سڑک کی قریبی آبادی متاثر ہوتی ہے بلکہ پورے علاقے میں طرح طرح کے امراض اسی گرد و غبار کی وجہ سے پھیلتے ہیں ۔ ہم نے بہت سوں کو ووٹ دیا اور آزمایا ۔ ہمارے سیاسی راہنما اجتماعی طور پر کام نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک جیب سے دوسری جیب تک کی سیاست ہے جس سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اور بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تو اب تک میں میر محمد خان میری کو ایک عام دکاندار کے طور پر پرکھ رہا تھا اور اُسی سطح کی گفتگو کر رہا تھا لیکن جب انہوں نے اجتماعی مفاد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے گفگتو کا آغاز کیا تو میں نے میرمحمد خان میری کی شخصیت کے حوالے سے اپنی گزشتہ خیال پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی اور سوچتا رہا کہ آخر میری جیسی سوچ باقی لوگوں کی کیوں نہیں ہےاگر سب لوگ ان خطوط پر سوچنا شروع کریں تو کونسا کام ہے جو ممکن نہ ہو ۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم نے حالیہ انتخابات میں دیکھا کہ لوگ انفرادیت کو اجتماعیت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ میر محمد خان میری کی سیاسی بصیرت کو جانچنے کے بعد یہی سوال میں نے اُن سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ پچیس سالوں سے پیپلز پارٹی سے منسلک ہوں اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ میں اس پارٹی میں کیوں ہوں ؟ تو میرا یہی جواب ہوگا کہ اس پارٹی کے بانی نے ہمیں محبت دی تھی ۔ کون بھول سکتا ہے جب علاقہ قحط میں ڈوبا ہوا تھا تو ذولفقارعلی بھٹو نے بذریعہ جہاز اناج گرا کر ہماری جانوں کو بچایا تھا اور پھر جب بروغل میں زیادہ برف باری سے پالتو جانور اورمال مویشی کی جانیں خطرے میں پڑیں تو وہی شخص تھے جنہوں دوبارہ بذریعہ جہاز مویشیوں کے لئے چارہ گرا کر اُن کی جانیں بھی بجائی تھیں ۔ یہی نہیں بلکہ لواری جیسے دشمن کا سنگلاخ سینہ بھی انہوں نے پہلی بار چیرا تھا ۔ مِیری سے میں نے دوبارہ سوال پوچھا کہ کیا وہ ہمیشہ کے لئے اسی پارٹی میں رہیں گے تو انہوں نے کہا کہ پارٹی مذہب تو نہیں کہ انسان مرتے دم تک اُسی میں رہے ۔ میں ذاتی طور پر ہر اُس پارٹی سے ہم آہنگ رہوں گا جو قومی مفاد کو ترجیح دے اور اجتماعیت کو اپنا منشور بنائے۔ چاہے ایسی شخصیت بھٹو کی شکل میں سامنے آئے ہو یا ضیا ٔ الحق کی بھیس میں ۔ مِیر ی کی سیاسی باتیں بڑی معنی خیز تھیں ۔ میں نے مِیری صاحب سے ملاقات کا تذکرہ اُن کے ہم جماعت ظہیر الدین بابر سے کیا تو انہوں نے سکول کے زمانے کی ایک دلچسپ کہانی سنائی ۔
ہوا یوں کہ سکول کے زمانے میں موسم سرما میں صبح نو بجے کے بجائے سات یا ساڑے سات بجے سکول کی حاضری کروانے کے لئے مِیری نے اپنے ہم جماعتوں کو اپنی حمایت میں لے کر سکول میں شور شرابہ کیا ، سکول میں حالات خراب ہوئے ، طلبہ کے باغی ہونے کا امکان قوی نظر آنے لگا اور معاملہ جب الجھاو کا شکار ہوا تو اساتذہ نے سرغنے کو ( مِیری کو ) تحویل میں لیکر باس پرس شروع کی اور مِیری کو سرزنش کرتے ہوئے تنبیہ کی گئی کہ انہوں نے طلبہ کو اُکسا یا ہے جو کہ سکول کے قوانین وضوابط کے منافی ہے ۔ مِیری نے جواب دیا ’’ سر ہم نے کوئی قانون شکنی نہیں کی ہے بلکہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے پر امن احتجاج کیا ہے ‘‘ ’’پُر امن احتجاج‘‘ کا لفظ سن کر پوچھ گچھ پر تعنیات ٹیچر ہکا بکا ہو کر رہ گیا کیوں یہ لفظ بہت موٹا اور وسیع تھا ۔ اُ س زمانے کے اعتبار اور میری کی عمر کے لحاظ سے ایسے الفاظ کا استعمال پہلو داری سے خالی نہ تھا ۔ ٹیچر نے مِیری کا یہ بیان ہیڈ ماسٹر کومن و عن سنایا ( ہم نے کوئی قانون شکنی نہیں کی ہے بلکہ اپنے حقوق کےلئے پر امن احتجاج کیا ہے ) ہیڈ ماسٹر صاحب بھی اس بیان پر حیران ہوئے اور واقعے کے پیچھے کسی دوسرے ہاتھ کے کارفرما ہونے پر گمان غالب کیا ۔ مِیری صاحب کے بارے میں سنی سنائی اس کہانی کی وضاحت کے لئے میں نے دوبارہ مِیری سے رابطہ کیا تو انہوں نے اُس واقعے کی تصدیق کرتے ہوہے کہا کہ سکول میں ایسا واقعہ ضرور ہوا تھا تاہم اس میں کوئی دوسرا ہاتھ کار فرما نہیں تھا البتہ یہ ضرور تھا کہ میرا ذہن سیاسی اصطلاحات کو جلد قبول کیا کرتا ۔
میرمحمد خان میری نے سکول کے بعد کالج کا زمانہ بھی دیکھا لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے اپنا تعلیمی سفر جاری نہ رکھ سکے ۔ ورنہ میری کے اندر سیاسی بصیرت بدرجہ آتم موجو تھی