مبارک ہو! اہالیانِ دیامر کا ترقی کی جانب پہلا قدم
سب سے پہلے میں دیامر جرگہ کے اکابرین، محبِ وطن اہالیانِ دیامر اور وہاں کے روشن خیال علمائے دین کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اسلحہ اور دہشت گردوں سے پاک دیامر کے سفر کا آغاز کرکے کئی دہشت گردوں کو خود پکڑ کے جس طرح حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ وہ جہاں انتہائی قابلِ تحسین و صد آفرین اقدام ہے تو وہاں یقیناً یہ اقدام اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اب دیامر کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ترقی کی جانب یہ پہلا قدم بارش کے پہلے قطرے کی طرح اس علاقے کو علمی طور پر سیراب کرے گا۔ انشااللہ العزیز۔
دیامر سے قلبی لگاؤ کو ایک عرصہ ہو رہا ہے۔ یہ پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے جب میں ’’بادشمال‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں مستقل لکھا کرتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے پبلک سکول چلاس سے مہتاب نام کے ایک طالب علم نے مجھے فون کرکے اپنے سکول میں سائنس ٹیچر کی کمی کا اظہار کیا تھا۔ جس پر میں نے نو نومبر دوہزار نو کے ’’بادشمال‘‘ میں تفصیلی کالم لکھا تھا۔ پھر اس کے چند دن بعد ہی چلاس کے ایک گورنمنٹ سکول سے طالب علم عمر نے کال کرکے تعلیمی پسماندگی کا رونا رویا تھا۔ جس پر ’’چلاس سے ایک اور ٹیلی فونک پیغام‘‘ کے عنوان سے بائیس نومبر دوہزار نو کو ’’بادشمال‘‘ میں ہی میرا دوسرا کالم چھپا تھا۔ یہ دونوں مضامیں میری نئی کتاب ’’سسکیاں‘‘ میں چھپے بھی ہیں۔ یہی میرا چلاس سے پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی جس خطے کو لوگ پسماندہ سمجھ رہے ہیں یا تعلیمی لحاظ سے پیچھے سمجھ رہے ہیں وہاں کی نئی پود کتنی ذمہ داری سے اپنے تعلیمی عمل میں آگے بڑھ رہی ہے۔
پھر مختلف ادبی و علمی کانفرنسز میں وہاں کی علمی شخصیات سے ملاقات اور دوستی، اور خصوصاً ان کا اخلاق میرے لیے قابلِ دید ہی نہیں قابلِ تقلید بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میری پہلی کتاب ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کا فلیپ چلاس کے میرے محترم دوست جناب عنایت اللہ شمالی نے لکھا تھا۔ ان کا سیاسی مرتبہ اپنی جگہ لیکن موصوف علمی و ادبی کاوشوں کے حوالے سے بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ پھر چلاس سے ادبی رشتہ ایسا جڑا کہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ میں جب بھی چلاس کے بارے میں سوچتا ہوں میرے ذہن میں عنایت اللہ شمالی، امیر جان حقانی، حلیم فیاضی، مجیب الرحمن، عزیزم شاہد اقبال اور کئی دیگر دوستوں کا خاکہ آتا ہے۔ ان کی دوستی کی اس سے بڑی مثال اور کیا دی جاسکتی ہے کہ کئی سال پہلے ہزاروں میل دور چلاس سے عنایت اللہ شمالی صاحب اپنی ہزار مصروفیات چھوڑ کے میری شادی میں شرکت کرنے غذر کے دور افتادہ گاؤں بارجنگل پہنچے تھے۔ یہ ان کی محبت تھی ورنہ من آنم کہ من دانم!
پچھلے سال مجھے فلائیٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ اسلام آباد سے رینٹ کار میں گلگت کی طرف نکلنا پڑا تو یقین کیجئیے چلاس سے عزیزم شاہد اقبال اور کئی دیگر دوستوں نے کئی دفعہ فون کرکے پوچھا تھا ’’سر! آپ کہاں تک آئے ہیں اور کب چلاس پہنچیں گے۔ کھانا ہمارے ساتھ کھا کے جائے یا ہمارے گھر میں رہ کر صبح سفر جاری رکھے۔‘‘ وہ تو ہم اسلام آباد سے دیر سے نکلے تھے اس لیے رات کے اندھیروں میں چلاس سے گزر گئے ورنہ شاہد اقبال اور دیگر دوستوں کے خلوص اور چلاس کی روایتی شاندار مہمان نوازی سے لطف اٹھاتے۔ شاہد اقبال اور ان دوستوں کی یہ محبت اور ان کا یہ خلوص بتا رہا تھا کہ چلاس والے کس حد تک مہمان نواز اور انسانی ہمدردی رکھنے والے لوگ ہیں۔
پھر دوہزار گیارہ بارہ میں جب حالات خراب ہوئے۔ کچھ شر پسندوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے دیامر کی سرزمین کو خوب بدنام کیا۔ نہ جانے ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا مقصد کیا تھا۔ گزشتہ دنوں ایک دفعہ پھر دہشت گرد منظر عام پہ آئے اور لڑکیوں کے کئی سکول جلائے۔ دیامر ایک دفعہ پھر طنز و ملامت کے گھیرے میں آیا۔ پھر پولیس اور فوجی آپریشن ہوا۔ جوکہ تا حال جاری ہے۔ جس پر میرے بعض دوست نالاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ دیامر کو سوات بنایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے جہاں ہمارے دوست محمد الکوہستانی پریشان ہیں وہاں امیر جان حقانی اور حلیم فیاضی بھی آپریشن سے خوش نہیں۔ تینوں کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ محمد الکوہستانی (مفتی نذیر) کو دعویٰ ہے کہ اس کی جنم بھومی غذر ہے اور غذر میں خودکشیوں کے حوالے سے موصوف کا دل جلتا بھی ہے۔ لیکن یہ بات ہم کیسے مانے وہ کوہستانی ہی ٹھیک ہیں۔ اپنے نام کے ساتھ کوہستانی لکھ کے غذر کے بارے میں رونا اور یہ دعویٰ کرنا کہ غذر سے ان کا تعلق ہے کم سے کم میرے لیے حیرت کی بات ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اپنے نام کے ساتھ اپنے علاقے کا نام لکھیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ علاقے سے ہماری پہچان نہ ہو بلکہ ہم کچھ ایسا کر گزرے کہ ہم سے ہمارے علاقے کی پہچان ہو۔ ہاں پھر بھی اگر نام کے ساتھ علاقے کا نام لکھنا ضروری ہے تو ہمیں انتظار رہے گا جس دن مفتی صاحب اپنے نام کے ساتھ محمد الکوہستانی کی جگہ محمد الغذری لکھیں گے اس دن ہمیں یقین ہوگا کہ موصوف کو واقعی اپنے علاقے کے بارے میں فکر ہے۔ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مفتی صاحب بڑے ہوشیار اور لفظوں سے کھیلنے والے آدمی ہیں وہ ضرور اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ ان کے آباؤاجداد کوہستان سے تعلق رکھتے تھے اس لیے وہ ایسا لکھتے ہیں۔ ایسا ہے تو جناب مجھے اپنے نام کے ساتھ ایرانی یا شیرازی لکھنا چاہئیے کہ میرا پردادا شیخ سعدیؒ شیزاری ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ بات پردادا یا آباؤ اجداد کی نہیں بات آپ کی ہے کہ آپ کہاں پیدا ہوئے اور کس زمین سے رزق کھا رہے ہیں۔ بس اتنی سی بات سمجھنے کی ہے۔ امید ہے ہمارے مفتی دوست اس پہ فتویٰ دینے سے پہلے ایک لمحے کے لیے سوچے گا ضرور۔ خیر بات ہو رہی تھی کہ تینوں فرزندانِ دیامر کا کہ یہ آپریشن سے کیوں خوش نہیں ہیں؟
حقانی صاحب نے تو حد کردی۔ انہوں نے یہ سارا الزام آغا خان فاؤنڈیشن پر ڈالا کہ ان کی بے رخی کی وجہ سے دیامر میں پسماندگی ہے۔ میں نے ان کے پوسٹ پہ یہی کمنٹ کیا تھا کہ تبدیلی ہمیشہ اندر سے آتی ہے باہر سے نہیں۔ جس علاقے میں گورنمنٹ سکولوں کی بقا خطرے میں ہو وہاں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے سکولوں کو کیسے برداشت کیا جائے گا۔ آغا خان فاؤنڈیشن کو چند دہشت گرد وہاں یہودیوں کے ایجنٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انیس سو اسی میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے جنرل منیجر شعیب سلطان (جو بزات خود اہلِ سنت تھے) نے چلاس میں کام شروع کیا تو اس کے ردِ عمل میں چلاس میں کچھ شر پسندوں نے اسماعیلی مسلمانوں کا جماعت خانہ جلایا۔ ہمیں پتہ ہے شر پسندوں کی تعداد مٹھی بھر ہے۔ اہالیانِ دیامر کی بڑی تعداد پرامن اور علم دوست ہے۔ لیکن ان سے گلہ ضرور ہے کہ اتنے اچھے لوگ ان مٹھی بھر شرپسندوں کو سنھبال نہیں سکے۔ کاش! وہ اس وقت آغا خان فاؤنڈیشن کا ساتھ دیتے تو اس وقت دیامر کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ تبدیلی ہمیشہ اندر سے ہوتی ہے باہر سے نہیں۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے:
"If an egg is broken by an outside force, life ends. If broken by an inside force, life begins. Great things always begin from the inside.”
اس لیے پہلے وہاں کے لوگوں کو خود تبدیلی کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ ورنہ باہر سے کچھ نہیں ہوگا۔ تبدیلی مثبت رویے سے آتی ہے تعلیمی ایمرجنسی سے نہیں آتی۔ لہذا گزارش یہ ہے کہ وہاں پہلے اسلامی تعلیمات کا فروغ ہو، مٹھی بھر دہشت گردوں کا صفایا ہو، اسلحہ سے پاک دیامر کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی جائیں، اچھے علمائے دین کی خدمات حاصل کی جائے، تبدیلی شعور سے آتی ہے سکول سے یا تعلیمی ایمرجنسی سے نہیں اور شعور دینا علمائے دین کا کام ہے۔
مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ایک عالمی سازش ہے۔ میری سمجھ میں یہ تو آتا ہے کہ سکول جلانے اور لوگوں کو بسوں سے اتار کر تہ تیغ کرنے میں تو عالمی سازش ہوسکتی ہے اور یہ گریٹ گیم کا حصہ ہوسکتا ہے اس سے کس کم بخت کو انکار ہے۔ لیکن نالوں سے مویشیاں چرانے، غریب لوگوں کی بیٹیاں اغوا کرنے میں بھلا عالمی سازش کیونکر ہوسکتی ہے۔ دوستو! کچھ چیزوں میں ہمیں علاقائیت اور مذہب سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا۔ یہ بات ہم سب کو سمجھنا چاہئیے کہ چور، ڈاکو، قاتل اور دہشت گردوں کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا، ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ کوڑیوں کے دام بک جاتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے یہ احباب پریشان کیوں ہیں۔ کیا یہ ان دہشت گردوں کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگ صرف دیامر میں نہیں، کم یا زیادہ تعداد میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی خطے سے ان کا صفایا وہاں کے عوام اور عمائدین کی اہم ذمہ داری بنتی ہے۔ جوکہ دیامر جرگہ کے اکابریں اور وہاں کے سنجیدہ لوگوں نے کرکے دکھایا ہے۔ جس کے لیے یقیناً وہ ہمارے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
باقی اس مشکل وقت میں دیامر کے ساتھ ہم سب کا دل جلتا ہے۔ کون کم بخت ہوگا جو اس مشکل وقت میں بھی دیامر پہ طنز کرتا ہو۔ لیکن پہلی بات آپ تبدیلی چاہتے ہیں اور واقعی آپ کا دل چاہتا ہے کہ دیامر ترقی کرے تو بخدا سیکیورٹی اداروں کا ساتھ دے۔ علاقے کو اسحلہ سے پاک کرنے میں مزید تعاون کریں، اپنے بچوں اور بچیوں کے ہاتھوں سے پستول اٹھاکر قلم اور کاغذ تھمائے کہ آج کے زمانے کا سب سے بڑا ہتھیار یہی قلم کاغذ ہی تو ہے اور ہاں ایک لڑکے کی تعلیم فردِ واحد کی تعلیم ہے جبکہ ایک لڑکی کی تعلیم ایک خاندان اور پورے معاشرے کی تعلیم ہوتی ہے اس لیے دخترانِ دیامر کو تعلیم دینے میں اپنا کردار ادا کرے، اسلحہ سے پاک دیامر کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے اور اس کام میں ہم آپ سب کو حکومت کا ساتھ دینا ہوگا اور جس دن دیامر اسحلہ سے پاک ہوگا وہ دن دیامر کی زوال کا آخری اور ترقی کا پہلا دن ہوگا۔ یہ کام کافی مشکل ہے وہاں کے بعض یخ بستہ دلوں کو پگھلانا اور تلخ لہجوں کو نرمی میں بدلنا آسان نہیں۔ جس کی ایک جھلک میرے دوست شمالی صاحب نے اپنے ان اشعار میں بھی کیا ہے؎
دیامر گرچہ خوں آشام ہے تندخو بھی ہے
دامنِ پربت کے دامن میں مگر خوشبو بھی ہے
تلخ لہجوں کی زمیں پر دوستو! بس خال خال
مضطرب کچھ دل ہیں جن میں مصلحانہ خو بھی ہے
یہ بات تو سچ ہے کہ تلخ لہجوں کی زمین پر یہ مضطرب دل خال خال ہی سہی لیکن وہاں کی تقدیر بدلنے میں یہی لوگ اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمارے جنت نظر خطے کو ارضی سماوی آفات سے محفوظ رکھے اور ہم سب کا حامی و ناصر ہوں۔ آمین!
’’این دُعا از من و از جملہ جہاں آمین باد‘‘