عوامی مسائلچترال

چترال:‌پندرہ سو نفوس پر مشتمل موری بالا نامی گاوں کی آبادی پانی کی سہولت سے محروم

چترال(گل حماد فاروقی) موری بالا کے تین دیہات پندرہ سو نفوس پر مشتمل ہیں مگر یہ ڈیڑھ ہزار لوگ پینے کے صاف پانی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ چترال سے بونی جاتے ہوئے موری بالا میں مین روڈ پر ایک نجی کالج بھی ہے اس کالج میں اسی کے لگ بھگ طالبات زیر تعلیم ہیں مگر ان کیلئے بھی پانی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔

اس کالج کے ڈائیریکٹر محمد اکبر کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک گاڑی صرف اسلئے رکھا ہوا ہے جس میں روزانہ بہت دور سے جاکر پانی لاتے ہیں یہ پانی پینے اور واش روم میں استعمال کیلئے لانا پڑتا ہے انہوں نے مزید بتایا کہ ساتھ ہی گورنمنٹ ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکول ہیں ان میں بھی پانی کی شدید قلت ہے اور بچے شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔

علاقے کے بچیوں نے عجیب انداز میں احتجاج کرتے ہوئے پانی کی حالی بالٹیاں اٹھائی اور نعرہ بازی کی کہ ہمیں پانی فراہم کی جائے ہماری حالی بالٹیوں میں پانی بھرا جائے۔

اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والی نویں جماعت کی طالبہ صباء کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ سکول جانے سے پہلے اور سکول کے بعد بالٹی یا مٹکا اٹھا کر دریا سے گندا پانی سروں پر اٹھا کرلاتی ہیں جسے تھوڑی رکھ کر جب اس میں موجود گند بیٹھ جائے تو اس گندا پانی کو ہم کھانے پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

صباء گل نے کہا کہ نہ صرف وہ بلکہ اس کے گاؤں کے تمام بچیاں اور بچے دریا سے پانی لانے پر مجبور ہیں کیونکہ پورے علاقے میں پانی کا کوئی پائپ لائن نہیں ہے اگرچہ پانی کا ذحیرہ (چشمہ) سات کلومیٹر دور واقع ہے مگر یہ لوگ غریب ہیں اتنا لمبا پائپ خرید نہیں سکتے اور حکومت نے کبھی ان کی مسئلے کی حل کرنے پر غور نہیں کیا۔

اسی گاؤں کے ایک اور خاتون کشور سلطان نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اس گاؤں میں پینے کی پانی کی شدید قلعت ہے اور ساتھ ہی آبپاشی کیلئے بھی پانی نہ ہونے کی برابر ہے کشور سلطان نے بتایا کہ پینے کیلئے وہ لوگ سروں پر مٹکوں میں دریا سے گدلا پانی لاکر اسے تھوڑی دیر رکھ لیتے ہیں تاکہ اس میں موجود مٹی اور گند بیٹھ جائے او ر اس کے بعد اسے ہم استعمال کرتے ہیں مگر اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پانی کیلئے کئی بار مہذب طریقے سے آواز بھی اٹھایا مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ہماری زمین بنجر بن گئی اور پھلدار باغات بھی خشک ہوکر اس کا پھل گر رہا ہے یہ ذرعی زمین اور پھلدار باغات ہماری آمدنی کا واحد ذریعہ تھی جو اب نہ رہا انہوں نے وفاقی، صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ محکمہ پبلک ہیلتھ، اور محکمہ ایریگیشن کے ارباب احتیار سے بھی اپیل کی کہ ان کیلئے آبپاشی اور پینے کی پانی کا بندوبست کی جائے تاکہ یہ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور نہ ہو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button