ضلع کونسل چترال کے ممبران اور اراکین اسمبلی نے غیر مقامی نامعلوم این جی او کے ذریعے کام کو مسترد کردیا
چترال(نامہ نگار) ضلع کونسل کا بجٹ اجلاس گذشتہ دنوں منعقد ہوا جسمیں کئی امور زیر بحث آئے۔ اجلاس کے دوسرے دن سی ڈی ایل ڈی پروگرام کے تحت منصوبوں میں تاخیر اور سوشل موبلائزیشن پارٹنر کی خدمات کے حصول کے سلسلے میں زبردست گرما گرمی ہوئی جسمیں ضلع کونسل اکثر اراکین نے اظہار خیال کرتے ہوئے سوات میں قائم ایک غیر معروف اور مقامی سطح کے غیر سرکاری ادارے کے ذریعے چترال میں اتنے بڑے پروگرام کو چلانے کی کوششوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ اس سلسلے میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے ضلع کونسل کے رکن مولانا محمود الحسن نے کہا کہ ایک ایسا ادارہ جس کا چترال میں کوئی وجود نہیں، کوئی دفترقائم نہیں، پہلے کبھی چترال میں کام نہیں کیا ہے، اسٹاف دستیاب نہیں وہ کیسے چترال جیسے مشکل علاقے میں کام کریگا جبکہ اسوقت سی ڈی ایل ڈی کے کام پہلے سے ہی تاخیر کا شکارہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں قائم ادارہ نے چترال کیلئے ٹھیکہ حاصل کرنے کے بعد چترال سے ایک مقامی نیٹ ورک کو اپنے ساتھ ملانے کی بات کررہا ہے جوکہ عوام اور حکومت دونوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ ہم پہلے ہی سے سب لٹ ٹھیکیداروں کی من مانیوں کیوجہ سے ترقیاتی اسکیموں میں تاخیر اور ناقص معیار کا رونا رو رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ عجیب بات ہے کہ کم ریٹ کا شوشہ چھوڑکر اسے ٹینڈر کے حصول کے لئے جواز بناکر پیش کیا جاتا ہے مگر اس حقیقت کو پس پشت ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے کہ کم ریٹ پر کام کا معیار بھی نا قص ہو گا۔ انہوں نے سی ڈی ایل ڈی میں سوشل موبلائزیشن پارٹنر کے حصول کے بڈنگ کے سارے عمل کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے کہا ایک نا معلوم ادارے کو اتنے بڑے پروگرام میں شامل کرنے کے پیچھے ضرور عوامل کارفرما ہیں اور اس سلسلے میں مکمل تحقیقات کرائے جائیں اور EPS اور اسکے مقامی پارٹنر ادارے کی استعداد کار بھی چیک کیا جائے کہ انہوں نے بڈنگ کے حصول کے لئے جو دستاویزات دئیے ہیں کیا وہ واقعی میں حقیقی دستاویزات ہیں یا ہوائی۔ نہوں نے سی ڈی ایل ڈی نوٹیفکیشن میں سوشل موبلائزیشن پارٹنر کے سلیکشن کے طریقے کار کو ایوان میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ EPSنام کا ادارہ ان میں سے کسی ایک بھی شرط پر پورا نہیں اترتا ۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بڑے بڑے دعوے کرکے تھرائیو نام کے ایک ادارے کو چترال لایا گیا تھا مگر اس نے چترال کے لئے ملنے والے فنڈز کا کیا حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے اور اب ہم CDLDکو بھی اسی طرح تباہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے پی ٹی آئی کے رحمت غازی نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ سی ڈی ایل ڈی میں کام بہتر طریقے سے ہو رہے ہیں مگر بعض عناصر اپنے مفاد میں اس عوامی فائدے کے پروگرام کو متنازعہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے سی ڈی ایل ڈی کے تحت ابتک ہونے والے کاموں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ مولانا عبدالرحمن نے کہا کہ اس سے قبل تھرائیو نام کے ایک غیر مقامی ادارے کو بھی اسی طرح بلند بانگ دعوؤں کے تحت یہاں لایاگیا تھا مگر اسی ادارے کی وجہ سے چترال کے 60کروڑ روپے یہاں سے چلے گئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بڈنگ کے عمل کی انکوائری ہو جائے اور سارے عمل کو صاف شفاف بناکر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے تاکہ چترالی عوام کو اس سارے عمل کا فائدہ پہنچ سکے۔ کوشٹ سے ضلع کونسل کے رکن غلام مصطفی ایڈوکیٹ ، شغور سے رکن کونسل عبدالقیوم و دیگر نے اس سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے غیر مقامی اور نا معلوم این جی او EPSکے ذریعے چترال میں سی ڈی ایل ڈی کو چلانے کے عمل کو نا قابل قبول قرار دیتے ہوئے ایسے کسی بھی اقدام کو یکسر مسترد کردیا۔ قبل ازیں ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے بجٹ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چترال میں چند این جی اوز اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں ، اب سی ڈی ایل ڈی کے لئے سوات میں قائم EPSنام کے ادارے نے بڈنگ میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور وہ یہاں آکر کم ریٹ پر کام کریگا لہذا ہمیں اس ادارے کی سپورٹ کرنی چاہئے تاہم ضلع کونسل کے ارکان نے ضلع ناظم کی تقریر کے بعد غیر متوقع طور پر اس چیز کے اوپر کھل کر بات کی اور چترال میں EPSکی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ ادارہ نہ اسوقت چترال میں مو جود ہے اور نہ اس سے قبل کبھی یہاں کام کیا ہوا ہے ، لہذا ایسے ادارے کے ذریعے کام کرنا سی ڈی ایل ڈی جیسے بڑے پروگرام کو فیل کرنے کے مترادف ہے جس کا براہ راست نقصان چترال کے غریب عوام کو ہوگا جو پہلے سے ہی سیلاب اور زلزلے کی وجہ سے تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی کے منتظرہیں۔ پورے ایوان میں ایک بھی رکن نے EPSکے حق میں ایک لفظ نہیں بولا۔
درایں اثناء سی ڈی ایل ڈی کے حالات سے باخبر ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی بڈنگ متنازعہ رہی ہے کیونکہ ایک ایسے ادارے کو زیادہ نمبر دئیے گئے ہیں جوکہ چترال میں سرے سے موجود ہی نہیں اور نہ اسکے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اس بڑے پروگرام کو چلا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بعض عناصر اس بڈنگ کے ذریعے نہ صرف اپنی سیاست چمکانے کی کوششوں میں ہیں بلکہ وہ اس عمل سے پیسے بٹورنے کے خواب دیکھ رہے ہیں مگر اس سارے عمل کا نقصان چترال کے عوام کو ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کردیا کہ سی ڈی ایل ڈی کے حوالے سے بڈنگ میں EPSکا ریٹ بہت ہی کم ہے جبکہ اسکے مقابلے میں ایس آر ایس پی کا ریٹ زیادہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ سی ڈی ایل ڈی نوٹیفکیشن کے مطابق 75فیصد نمبر ٹیکنیکل بنیادوں پر ملنے ہیں اور اس ٹیکنیکل بنیاد پر EPSکو حقائق کے منافی نمبر دئیے گئے ہیں کیونکہ EPSنام کا کوئی ادارہ چترال میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں کبھی چترال میں کام کر چکا ہے۔