کالمز

ناشادؔ صاحب کا ’’جادۂ نور‘‘

فکرونظر: عبدالکریم کریمی

دوستِ محترم الحاج فدا محمد ناشادؔ صاحب کا سفرنامۂ ایران بنام ’’جادۂ نور‘‘ میرے زیر مطالعہ ہے۔ یہ ۲۰۱۲ء ؁ کی بات ہے۔ کسی ادبی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے مجھے کچھ دن سکردو میں خیمہ زن رہنا پڑا۔ ایک دن پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے ساتھ ناشادؔ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ناشادؔ صاحب کی زیر نظر کتاب اُن دنوں تازہ تازہ منصہ شہود پر آئی تھی۔ ناشادؔ صاحب نے کہا ’’دل کو دل سے راہ ہوتی ہے کل سے میں آپ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آپ تک کتاب کیسے پہنچائی جائے اور آج آپ حاضر ہوئے۔‘‘ میں نے کہا ’’محترم! آپ کی محبت ہے آپ یاد کرے اور ہم حاضر نہ ہوں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘ خیر! انہوں نے اپنی تازہ کتاب کی اعزازی کاپی عنایت فرمائی۔ بڑی اچھی نشست رہی۔ گلگت بلتستان میں ادب اور ادبی رویوں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اُن دنوں سہ ماہی ’’فکرونظر‘‘ تسلسل سے شائع ہو رہا تھا۔ ناشادؔ صاحب سے ملاقات کی ایک وجہ رسالے کے لیے اُن سے مضمون لینا بھی تھی۔ یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے ہمیشہ تعاون کیا اور رسالے کے لیے نہ صرف اپنے تحقیقی مضامین بھیجتے رہے بلکہ اپنی شاعری سے بھی نوازتے رہے۔ میں سوچ کے حیران ہوں کہ سیاست کی بھول بھلیوں میں آخر ناشادؔ صاحب لکھت پڑھت کے لیے اتنا سارا وقت کہاں سے لاتے ہیں۔ بہرحال ایسی شخصیات معاشرے کے لیے فیض کا باعث ہوتی ہیں۔

گزشتہ دنوں پھر مجھے اپنی دفتری مصروفیات کی وجہ سے سکردو جانا پڑا۔ ناشادؔ صاحب کی محبت ہے کہ میری آمد کا سن کر وہ میرے پاس ہوٹل تشریف لائے۔ ایک دفعہ پھر پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ نئی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے بات ہوئی۔ میں نے اپنی دونوں تازہ کتابیں کلیاتِ کریمی کی جلد دوم اور سوم ’’سسکیاں‘‘ اور ’’تلخیاں‘‘ کی اعزازی کاپیاں ناشادؔ صاحب کو پیش کیں۔ انہوں نے اپنی دو نئی تالیفات کا ذکر کیا اور کہا کہ گلگت آکر آپ کو دونوں کتابوں کی اعزازی کاپیاں بھیج دوں گا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’محترم! میں پہلے ہی آپ کی محبت کا مقروض ہوں۔ آپ کی پہلی کتاب پر تبصرہ میرے اوپر قرض ہے۔‘‘ ہاں ان کی پہلی کتاب ’’جادۂ نور‘‘ ایک دفعہ پھر زیر بحث تھی۔

ناشادؔ صاحب کی کتاب ’’جادۂ نور‘‘ کی اعزازی کاپی تو مجھے چھ سال پہلے ملی تھی۔ لیکن اپنی بے جا مصروفیت کی وجہ سے میں پڑھ نہیں سکا تھا۔ آج کی ملاقات نے مجھے شرمندہ بھی کیا۔ سکردو سے واپسی پر میرا پہلا کام ’’جادۂ نور‘‘ کا مطالعہ اور اس پر اظہارِ نظر لکھنا تھا۔ سو، مجھے اپنی ذاتی لائبریری میں تلاشِ بسیار کے بعد ناشاد صاحب کی مذکورہ کتاب ملی۔ میں نے دو نشستوں میں اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ چھپی ہے۔ کتاب کے بیک ٹائٹل پر ملک عزیز کے نامور ادیب اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین جناب افتخار عارف کے تأثرات درج ہیں۔ انہوں نے ناشادؔ صاحب کی کتاب کو اہلِ بیت سے محبت کرنے والوں کے لیے بہترین تحفہ قرار دیا ہے۔ کتاب کے اندرونی پہلے صفحات پر بلتستان کے نامور محقق جناب یوسف حسین آبادی نے بڑے خوبصورت پیرائے میں مصنف کا تعارف لکھا ہے۔ بعد ازاں دوستِ محترم پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب نے ناشاد صاحب کو اس علمی کاوش پر منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ’’قطعۂ تاریخ‘‘ میں موجود پروفیسر صاحب کا یہ شعر ناشادؔ صاحب کے سفرنامے کو اُٹھان دینے کے لیے کافی ہے۔ پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب نے خوب کہا ہے کہ ؂

ذوق و شوق و محنت و کاوش، عقیدت، عشق سے

یہ سفرنامہ لکھا ناشادؔ نے کیا شاندار

کتاب کے پہلے صفحے پرمیرے نام ناشادؔ صاحب کے ہاتھوں سے لکھا ہوا محبت نامہ برائے اعزازی کاپی سے ہی آپ ان کے ادبی قد کاٹھ کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ بڑی محبت سے لکھا ہے:

’’برادر گرامی قدر

عبدالکریم کریمی صاحب کی خدمت میں ؂

تحفۂ ناشادؔ ناچیزے بکف

’’گر قبول افتد زہے عزو شرف‘‘

فدا محمد ناشادؔ

حسین آباد سکردو

۱۲؍ شعبان ۱۴۳۳ھ بمطابق ۳؍ جولائی ۲۰۱۲ء ؁‘‘

کتاب کے شروع میں سورۃ الشوریٰ کی آیت ۲۳؍ سے استفادہ کیا گیا ہے جس میں ربِ کائنات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مفہوم: ’’کہہ دیجئے میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے قریبی رشتہ داروں (اہل بیت) کی محبت کے۔‘‘

ناشادؔ صاحب کا پورا سفرنامہ اس آیۂ مبارکہ کے گرد گھومتا ہے۔ کیوں نہ ہو کہ مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے کہ

مفہوم: ’’ہم خدا اور خدا کے بندوں کے درمیان رابطے اور وسیلے ہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کی محبت آپ کو سکردو کی پہاڑیوں سے ایران کی زیارتوں تک پہنچاتی ہے۔ وہ جہاں ان پاک و پاکیزہ ہستیوں کی زیارتوں پر سجدہ ریز ہوکر اپنی محبت و عقیدت کا خراج پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہیں اپنے اس سفر محبت میں تمام احباب کو بھی اپنی دُعاؤں میں یاد کرنا نہیں بھولتے۔ کتاب میں شریکِ سفر تمام افراد کا تذکرہ، ایران کے چبے چبے کا قصہ، وہاں کی تاریخ، سیاست کے نشیب و فراز، وہاں کے مقدس مقامات، ائمہ علہیم السلام کی زیارتوں، اہالیانِ ایران کی روایتی مہمان نوازی اور ایرانی چائے کی چسکیاں………… کیا کیا اس سفرنامے میں پڑھنے کو نہیں ملتا۔ پھر بھی بقول باقیؔ صدیقی، ناشادؔ صاحب کا کہنا ہے کہ ؂

ہر ایک بات زبان پر نہ آسکی باقیؔ
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے

ناشادؔ صاحب بہت ہی نفیس انسان ہیں۔ ہر ایک کا احترام کرنا ان کی خاندانی تربیت کی رہینِ منت نظر آتا ہے۔ کتاب کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں:

’’دورانِ تحریر جن دوستوں کا تذکرہ ہوا ہے۔ مجھے ان میں سے ہر ایک سے بھرپور محبت بلکہ اُلفت ہے۔ اگر کسی کے بارے کوئی غیر ارادی جسارت میرے قلم کی زبان سے نکل چکی ہو، تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ میں کسی کی دل آزاری کا قطعاً سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ میں تو کانٹوں بھری جھاڑیوں میں بھی صرف کلیوں اور پھولوں کو تلاش کرکے ان کی مہک اور شگفتگی سے محظوظ ہونے کا عادی ہوں۔‘‘

دوست تو دوست ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ڈرائیور کے جذبات کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اپنی کتاب کے صفحہ ۶۳؍ پر مشہد شہر کی ایک زیارت سے واپسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہمیں وہاں سے لوٹنے کی جلدی نہیں تھی، لیکن ہمارے ڈرائیور کو ہم سے زیادہ جلدی تھی۔ اس لیے ہم نے اس کا دل دُکھانے کی بجائے واپسی کی ٹھان لی۔‘‘

یہی وہ چیز ہے جو ایک انسان کو آدمیوں سے الگ کرکے ممتاز مقام دیتی ہے ورنہ آدمیوں کی اس دُنیا میں انسانیت کی بات کرنا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔

دوست بھی تو ناشادؔ صاحب کے اتنے قدردان ہیں کہ ان کی قدردانی کی مثال دئیے بغیر وہ نہیں رہ سکے۔ خرم شہر میں دریائے کے کنارے چہل قدمی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے دوستوں کی قدردانی کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:

’’چند سیگریٹ نوشی کے شائقین دریا کے کنارے دُھواں اُڑا رہے تھے۔ مجھے آتے دیکھ کر ایک دو ساتھیوں نے سگریٹ پیچھے کی طرف پھینک دی۔ وہ اکثر یہ شوق مجھ سے چھپا چھپا کر ہی پورا کیا کرتے تھے۔ میں ان کے اس احترام کا بہت شکر گزار ہوں۔‘‘

ناشادؔ صاحب اپنے سفرنامے میں جہاں ایک ایک منظر کی منظرکشی کرتے نظر آتے ہیں وہاں وہ ہمیں کتب خانوں کی سیر کرتے ہوئے مطالعے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ایران کے بارے میں اکثر میں سوچتا رہتا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج ایران بڑی بڑی طاقتوں سے آنکھیں ملاکے باتیں کرتا ہے۔ تو اس کا راز بھی مجھے ناشادؔ صاحب کی کتاب میں ملا۔ وہ مشہد میں موجود ایک کتب خانے کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۴۵؍ میں لکھتے ہیں:

’’آستان قدسِ رضوی کا کتب خانہ ۲۸؍ ہزار مربع میٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ اس کی عمارت اسلامی طرزِ تعمیر کی ایک منفرد شاہکار ہے۔ جس میں ۵؍ لاکھ نادر و نایاب کتابوں کے نسخے موجود اور محفوظ ہیں۔ اس میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے کہ آپ اپنے نام کے ساتھ کسی بھی کتاب اور مصنف کا نام لکھ کر ایک برقی مشین کی جھولی میں ڈال دیں تو چند منٹوں کے اندر وہ مشین آپ تک اسی جھولی میں کتاب اٹھائے پہنچا دے گی۔ اس کتاب خانہ میں طلبا، اساتذہ اور صاحبانِ علم و تحقیق کی سہولت کے لیے ۱۸؍ بڑے بڑے ہال موجود ہیں جن میں سے ۹؍ مردوں کے لیے اور ۹؍ عورتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ان میں بحیثیت مجموعی ۲؍ ہزار افراد بیک وقت مصروفِ مطالعہ رہ سکتے ہیں۔‘‘

پھر کتاب کے صفحہ ۵۷؍میں لکھتے ہیں:

’’مشہد ہی کی کیا بات ایران کے جس شہر میں بھی آپ جائیں کتب خانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یہاں پرنٹنگ اور پبلشنگ کا کام انتہائی سستے داموں ہوجاتا ہے۔ کتابوں کے خریدار بھی علمی ملک ہونے کے باعث یہاں بہت زیادہ ہیں۔ یہاں کتابیں لوگوں میں بطور تحفہ دینے، دوستوں اور عزیزوں کو پیش کرنے کا بھی بہت رواج ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی مجھے ایران جانے کا موقع ملا دوستوں کی جانب سے کتابوں کے اتنے تحفے ملے کہ میں کوئی اور سامان کبھی ساتھ نہ لاسکا۔ کوئی ایرانی گھر شاید ایسا ہو جس میں دو چار درجن مذہبی، ثقافتی، تاریخی اور مختلف موضوعات کی کتابیں موجود نہ ہوں۔‘‘

ناشادؔ صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۱۳۹؍ میں عالمی اسلامی لائبریری کے عنوان سے جس لائبریری کا ذکر کرچکے ہیں۔ وہ ساتویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں فاطمی ائمہ علہیم السلام نے قائم کی تھی جوکہ دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ جس میں اس دور میں ۴؍ لاکھ کتابیں موجود تھیں۔ لیکن سقوط بغداد کی صورت میں جہاں مسلمانوں کے خون ندیوں کی صورت میں بہے وہاں دریائے فرات ان کتابوں کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا تھا اور یہی سے مسلم امہ کا زوال شروع ہوا۔ جس پر ناشادؔ صاحب نے بھی تفصیل سے لکھا ہے لیکن نہ جانے فاطمی ائمہ علیہم السلام کا تذکرہ کرنا کیوں بھول گئے ہیں۔

ایرانیوں کی کتاب دوستی اور وہاں کے کتب خانوں کا ذکر کرتے ہوئے ناشادؔ صاحب نے پاکستان کی علمی حالت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ صفحہ ۱۴۰؍ میں لکھتے ہیں:

’’پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری نیشنل لائبریری آف پاکستان اسلام آباد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ۳؍ لاکھ کتابیں موجود ہیں اور مزید ۷؍ لاکھ کتابوں کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اگر آپ اس لائبریری میں بھی جاکر جائزہ لیں گے تو کتب بینوں کی تعداد روزانہ درجنوں سے زیادہ نہ ہو۔‘‘

یہی چیزیں تو ایران کی کامیابی کا راز ہیں۔ خود ناشادؔ صاحب کے ذوق اور ان کی کتاب دوستی کا حال تو دیکھئے کہ جہاں بس رکی یا گاڑی نے بریک لگائی یہ موصوف وہاں موجود کتب خانے میں داخل ہوئے اور علمی پیاس بجھانے کی کوشش کی۔ یقین نہیں آتا تو ان کی کتاب کو دیکھئے جگہ جگہ کتب اور کتب خانوں کا ذکر آپ کو ملے گا۔ جیسے تہران ریوے اسٹیشن پہنچتے ہی وہ باقی ساتھیوں کے انتظار میں ویسے نہیں بیٹھتے بلکہ ایک کتب خانے میں داخل ہوکر مطالعے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ اسی طرح شہر نیشاپور کے دورے کے دوران وہ جہاں زیارتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں تو وہاں معروف رباعی گو شاعر اور ریاضی دان خیام نیشاپوری کی تصنیف ’’رباعیاتِ عمر خیام‘‘ کی تلاش میں نکلتے ہیں اور جب تک ان کو کتاب نہیں ملتی ان کو چین نہیں آتا۔ پھر بھی دل نہیں بھرتا تو ایران کی ریلوں میں کتب بینی کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۱۳۳؍ میں لکھتے ہیں:

’’ایران کی ریلوں میں ایک اور سہولت یہ بھی تھی کہ اگر دورانِ سفر کوئی مسافر مطالعہ کرنا چاہے تو اس کی لائبریری سے کتاب کی قیمت ضمانت رکھ کر آپ برائے مطالعہ اپنی پسند کی کتاب لے سکتے ہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ ہمیں ناشادؔ صاحب کی شخصیت میں نرمی، ٹھہراؤ، ملنساری، ادب اور قدردانی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ وہ سیاست کے بھی شہسوار ہیں۔ ڈسٹرکٹ کونسل سکردو سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرنے والے ناشادؔ صاحب شمالی علاقہ جات کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے پرکشش کرسی تک بھی پہنچے اور اب گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں لیکن مجال ہے کہ آپ کے طرزِ انسان دوستی اور ادب نوازی میں ذرا بھر بھی فرق آیا ہو۔ ورنہ تو سیاست میں اس قبیل کے لوگ بلکہ چھوٹے چھوٹے وزیروں کے سر میں بھی غرور و تکبر کا ایسا سریا ہوتا ہے کہ وہ کسی کو انسان تک نہیں سمجھتے۔ لیکن ناشادؔ صاحب سراپا محبت ہیں۔ اور اس محبت و مروّت کے پیچھے کتاب بینی اور ادبِ عالیہ کا گہرا مطالعہ ہے۔ جو ہر کس و ناکس کے حصے میں کہاں۔ کیونکہ بقول کسے ؂

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ناشادؔ صاحب کے پیش نظر غالباً فرحت ندیم ہمایوں کا یہ شعر ہے ؂

نہیں ہوتی ہے راہِ عشق میں آسان منزل

سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے

حیدر علی جعفری نے کہا تھا ؂

آئے ٹھہرے اور روانہ ہوگئے

زندگی کیا ہے سفر کی بات ہے

لیکن ناشادؔ صاحب اس شعر کے برعکس زندگی کو عبادت سمجھ کر گزارتے ہیں اور سفر بھی ایسا کہ صرف آئے ٹھہرے اور روانہ ہوئے، نہیں بلکہ کیوں آئے، کیوں ٹھہرے اور روانہ ہونے کی وجہ کیا ہے وہ یہ سب چیزیں لکھتے جاتے ہیں، داستاں لے کے آتے ہیں وہ حبیب جالب کی طرح نہیں کہ ؂

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

المختصر ’’جادۂ نور‘‘ محبت و عقیدت کی سیاہی سے لکھا گیا ایک دلچسپ سفرنامہ ہے جو گھر بیٹھے آپ کو ایران و عراق کی سیر کرائے گا۔ دُعا ہے کہ ربِ کائنات دوستِ محترم ناشادؔ صاحب کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button