کالمز

گلگت بلتستان میں تبدیلی آرہی ہے۔۔۔

صفدرعلی صفدر

عرصہ دراز سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ تواتر سے منعقدہ نشستوں میں عدم شرکت پر ایک صحافی دوست نے وجہ معلوم کرنے کے لئے استفسار کیا تو جواب میں اپنے مرحوم دوست قاری اقبال کا ایک مشہور ڈائیلاگ ’دنیا انسان کو آسمان پر اٹھاکرواپس زمین پر دے مارے تو سنہ کس کو یاد رہتا ہے ‘ مارتے ہوئے عرض کیا کہ جناب انسان جب کینسر جیسے ناسور مرض کا ڈسا ہوا ہو تو حکمرانوں کی محافل کا کہا خیال رہتا ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کیا کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سال2015کے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت کے ابتدائی ایام میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن بھی پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی طرح چادر دیکھے بناآسمان سے تاریں توڑ لانے اور علاقے میں دودھ کی نہریں بہانے کے دعوے کرتے تھے اور مجھ جیسا ناسمجھ لکھاری ان دعوؤں کو من وعن اخبارات کی زینت بنا تا رہتا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ صاحب کی وہ متاثرکن باتیں صرف باتوں اور دعوؤں کی حدتک رہ گئیں تو ہم نے بھی ان محافل سے کنارہ کشی کو غنیمت جانا۔

میرے دوست نے مذید کچھ اگلوانے کی کوشش کی تو عرض کیا کہ وزیراعلیٰ صاحب اپنے دور حکومت کے ابتدائی دنوں میں علاقے کی تعمیروترقی کے لئے جنون کی حدتک پرعزم تھے۔گلگت بلتستان کو فور وے لنک کے ذریعے اسلام آباد سے منسلک کرانا، سرکاری محکموں سے کرپشن کا خاتمہ، میرٹ کی بالادستی،گوڈگورننس، امن وامان کا قیام، نامکمل منصوبوں کی تکمیل،صحت اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات، صاف پانی کے منصوبے، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر،سیوریج سسٹم،ماحول دوست اقدامات میں پلاسٹک فری سٹی، شہریوں کوفری وائی فائی سہولت کی فراہمی،غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیوؤں کے حقوق کا تحفظ، غرض قبرستانوں کی تعمیرکے سلسلے میں بھی اٹھائے جانے والے اقدامات سے متعلق اگاہ کرتے رہتے ۔ مگر حکمرانی کے تین سال گزرجانے کے باوجودان اقدامات کا کوئی عملی نمونہ عوام کے سامنے نہیں لایا جاسکا۔ ماسوائے شہرسے کچرا اٹھانے کی غرض سے ویسٹ منیجمنٹ کے ادارے کاقیام اور چند ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ٹاکیاں لگوانے کے۔ باقی ماندہ منصوبے یا تو کاغذی فائلوں میں دفن ہوگئے یا ماضی کی طرح کرپشن کی نذر ہوگئے۔ نتیجتاً علاقے میں ترقیاتی عمل جمود کا شکار رہا اور مسائل میں اضافے کے سبب عوام کا حکومت پر اعتماد ختم ہوتا گیا۔

یہ محض میرا ہی مشاہدہ نہیں بلکہ حکومتی بنچوں سے لیکراپوزیشن اور خود لیگی کارکنوں سے لیکرعام شہریوں تک ہرطرف سے حکومتی کارکردگی پر وقتاً فوقتاً انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان کی جانب سے ترقی منصوبوں پر عملدرآمد میں تاخیر، صوبائی وزیر حاجی جانباز اور اپوزیشن ممبر جاوید حسین کی طرف سے این ٹی ایس کے تحت سرکاری محکموں کی خالی اسامیوں پر تقرریوں میں مبینہ بے ضابطگیاں، ڈاکٹر اقبال کی جانب سے بیوروکریسی کے سامنے بے بسی کی کہانیاں،تحریک انصاف کے رکن قانون ساز اسمبلی راجہ جہانذیب کا اے ڈی پی کے تحت مختص منصوبوں کی گمشدگی کا رونا دھونا،شاہین اینڈ سنز کی جانب دائرکردہ مقدمے کے فیصلے میں سرکاری اداروں میں مبینہ کرپشن سے متعلق عدالت عالیہ کے ایک معززجج کے ریمارکس اور حالیہ دنوں علاقے میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات اور ان واقعات میں مبینہ طورپر ملوث ہونے کے الزام میں درجنوں افراد کی گرفتاری وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن کی ناقص حکمرانیکے دلائل کے طورپر کافی ہیں۔

پھر بھی اگر کسی کو ان باتوں پر اعتراض ہو تو براہ کرم یہ معلوم کیا جائے کہ خود حکمران جماعت کے گلگت بلتستان میں بانی رہنما فداحسین اور انیس الرحمن نے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہوکروزیراعلیٰ سے ناطہ کیونکر توڑ دیا؟ اور غذر میں محکمہ صحت میں ہونے والی حالیہ بھرتیوں کی شفافیت سے متعلق لیگی رہنما وں کے بیانات کیونکر سامنے آرہے ہیں؟مزے کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے ہم پیالہ وہم نوالہ صحافی بھی ان کی حکومتی کارکردگی سے مایوس دیکھائی دے رہے ہیں جس کا اظہار ان کی تحاریر سے عیاں ہے۔

اس صورتحال کے باوجود وزیراعلیٰ صاحب ٹس سے مس نہیں ہوئے اور حسب روایت جگہ جگہ ایسے منصوبوں کا اعلان کرتے چلے گئے جن پر عملدرآمدحکومت کی اس رفتار سے تو کم ازکم ممکن نظرنہیں آرہا۔ چنانچہ وزیراعلیٰ کو ایسے اعلانات سے قبل ایک نظراپنے سابقہ اعلانات پر بھی دوڑانا چاہیے کہ انہیں سابقہ اعلانات پر عملدرآمد کرانے میں کس حدتک کامیابی مل سکی ہے۔ اگرانہیں اس بارے میں بیوروکریسی کی جانب سے اندھیرے میں رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں توذرا یہ بتایا جائے کہ یاسین ، گوجال سب ڈویژن، شناکی، منی مرگ وغیرہ کو تحصیل کا درجہ دینے، گلگت غذر روڑ کی مرمت سمیت کئی اہم کے اعلانات پرکس حدعملدرآمد ہوا ہے؟

سوال یہ ہے کہ کیا ایک سب ڈویژن کے لئے ایک اسسٹنٹ کمشنریا تحصیل کے لئے تحصیلدار کی تعیناتی سے دفتری امورچلائے جاسکتے ہیں؟ کیا محض سرکاری عمارتوں کی تعمیرکے لئے ترقیاتی سکیموں کے اعلانات سے عوامی مسائل کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا مبینہ دہشت گردوں کے ہاتھوں جلائے جانے والے سکولوں کو فعال بناکراساتذہ کی کمی دور کرنے سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کی بجائے درجنوں نئے سکولوں کا اعلان کوئی دانشمندی ہے؟ کیا علاقائی سیاحت سے حاصل شدہ حکومتی آمدنی کی بجائے سیاحوں کی تعدادکو لاکھوں میں بیان کرنے کو حکومتی کامیابی کا نام دیا جاسکتا ہے؟کیا علاقے میں چھپے شرپسندوں کے عزائم سے بے خبر رہ کرآمن کے فاختے اڑانے سے علاقہ ایشیا انڈکس میں پرامن خطہ کہلاسکتا ہے؟

مجھ جیسے ایک عام شہری کو اس چیزسے تو کوئی غرض نہیں کہ یہ عمارت سرکاری ہے یا کرایے کی، قدیم طرز تعمیر ہے یا جدید، عوام کوہمیشہ سکولوں میں اساتذہ ، ہسپتالوں میں ڈاکٹر وادویات،تحصیل میں پٹواری، اے سی آفس میں کلرک، عدالتوں میں انصاف،ملازمتوں میں میرٹ اور ترقیاتی کاموں میں تیزرفتاری وغیرہ کی فکرلاحق رہتی ہے۔ جب کہیں پر بھی متعلقہ لوازمات کا فقدان نظرآرہا ہو تو عوام کی نظریں سوالیہ نشان بن کر حکومتی کارکردگی کی جانب مبذول ہوجاتی ہیں جس کا اثر وہی ہوتا ہے جو گزشتہ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی پر ہوتا ہوا دکھائی دیا تھا۔

تب خودموجودہ وزیراعلیٰ اوراس کی ٹیم فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں تھے کہ گلگت بلتستان کے غیورعوام نے پیپلزپارٹی سے بیزاری کا عملی ثبوت دیا۔ آج عوام کی وہ نظریں ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کی جانب سوالیہ نشان بن کراٹھ رہی ہیں جسے انہوں نے بڑی امیدوں کے ساتھ بھاری مینڈیٹ دیکرمنتخب کیا مگرحکومتی ناقص کارکردگی نے عوام کی ان امیدوں پر یکسرپانی پھیردیا۔

تاہم گمان یہ کیا جاسکتا ہے کہ شاید وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے وفاق میں اپنی جماعت کی حکومت کے بل بوتے پراپنی حکمرانی کے ابتدائی ایام میں وہ بلندوبانگ دعوے کئے ہوں۔ کیونکہ وفاق میں حکومت کی تبدیلی کا گلگت بلتستان پر براہ راست اثرہوتا ہے اور وہ اثرخودحافظ حفیظ الرحمن نے سال 2013کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کی کامیابی کے بعد گلگت بلتستان میں اس وقت کی پاکستان پیپلزپارٹی کو مفلوج کرنے کی صورت میں خوف دکھایا تھا۔

لہذا اب وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کوحکمرانی کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ ملک بھرمیں تبدیلی کا آغاز ہوا ہے۔ جس کے تحت گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سابقہ دورحکومت کی متعدد سکیموں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جن میں گلگت بلتستان کے لئے بھی نواز لیگ کے دورحکومت کے متعددمنصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نئی وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان حکومت کا بھی کڑا احتساب کرنے کی باتیں گردش میں ہیں جس کے اثرات آنے والے وقتوں میں خودبخودعوام کے سامنے نمایاں ہونگے اور ہونے بھی چاہیے کیونکہ اب وفاق میں تبدیلی آچکی ہے اور گلگت بلتستان میں تبدیلی آرہی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button