کالمز

خودکشیاں ۔۔۔یہ سلسلہ کب اور کیسے تھمے گا؟

ممتاز گوہر

جینٹی والز کہتے ہیں ’’جب لوگ خود کشی کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ درد کو ختم کرتے ہیں۔مگر جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے درد اگلے تک منتقل ہو جاتا ہے‘‘۔

خودکشی کرنے کے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں مینٹل ہیلتھ ڈیلی میں پندرہ وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے ۔جن میں ذہنی بیماری، تکلیف دہ تجربات، ایذارسانی یا ڈرانا دھمکانا، شخصیت سے متعلقہ مسائل، منشیات کا استعمال، کھانے پینے کے مسائل، بے روزگاری، سماجی تنہائی، تعلقات سے متعلقہ مسائل، خاندان کی تاریخ و جنیات، فلسفیانہ خواہشات اور وجود کا بحران، جان لیوا امراض میں مبتلا ہونا، دائمی یا مستقل درد، معاشی مسائل اور تجویز کردہ ادویات شامل ہیں۔ان وجوہات کے ذیلی وجوہات بھی ہیں جیسے تکلیف دہ تجربات میں جنسی وجسمانی تشدد، گھریلو تشدد اور جنگ کے اثرات وغیرہ شامل ہیں۔

کہتے ہیں دنیا میں ہر انسان کم از کم ایک بار ڈپریشن کے عمل سے ضرور گزرتا ہے یہ منفی عوامل اوپر ذکر شدہ یا پھر کسی اور صورت میں سامنے آ جاتی ہیں۔کچھ صورتوں میں ڈپریشن اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ لوگ اس سے باہر نہیں نکل پاتے اس صورت حال میں ان کے نزدیک اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا ہی اس مسئلے سے چھٹکارا پانے کا واحد اور آسان حل ہوتا ہے۔

خود کشی کے واقعات نوجوانوں میں تیزی کے ساتھ فروغ پا رہے ہیں۔ ایک منفی اور غلط رجحان کا پروان چڑھنا اس بات کی غمازی بھی کرتا ہے کہ یقیناّ کہیں تو کچھ غلط ہو رہا ہے۔کوئی تو بات ہے جو ان نوجوانوں کو اس انتہائی اقدام کی طرف لے جا رہی ہے۔

نئی نسل کے ذہنوں میں شروع دن سے ہی یہ بات ڈالنے کی اشد ضرورت ہے کہ خود کشی نہ صرف حرام اور بزدلانہ فعل ہے بلکہ یہ ڈر اور ہار کی نشانی بھی ہے۔ اپنے مشکلات سے راہ فرار اختیار کرنا بہت آسان ہے مگر اصل بات تب بنے گی جب آپ اپنی زندگی سے مشکلات کو فرار ہونے پر مجبور کر دو۔جس وقت انسان کو اپنے خاندان کا سہارا بننے اور علاقے اور معاشرے کے لیے کچھ کرنا ہو اس وقت ان سے منہ موڑنا بزدلی کی انتہا ہے۔ انھیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ہر مشکل سے باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی دروازہ ضرور ہوتا ہے بس اس دروازے کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئی نسل کو مشکلات سے نمٹنے، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے طریقے، تکلیف دہ تجربات سے باہر نکلنے اور معاشی و معاشرتی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے گر سکھانے بہت ضروری ہیں۔

اگر ہم مذہب، مسلک اور علاقوں کے لبادوں سے باہر نکل کر سوچیں اور حقائق اور اعداد و شمار پر غور کریں تو یہ نقطہ بھی یقیناًانتہائی غور طلب ہے کہ گلگت بلتستان اور چترال میں خودکشی کے واقعات کا تناسب اسماعیلی اکثریتی علاقوں میں باقی علاقوں کی نسبت زیادہ کیونکر ہے؟ کہیں جدیدیت اور مقابلے کے رجحان سے معاشی و معاشرتی خلا تو پیدا نہیں ہو رہا ہے؟ ایسی کوئی انفارمیشن اب تک نہیں ملی ہے کہ ان علاقوں سے اس عفریت کے تدارک کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے ہوں۔ یا ایسی کوئی تحقیق متعلقہ اداروں نے انجام دیئے ہوں جن سے بنیادی حقائق کو سامنے لانے میں مدد ملی ہو۔ خدا نخواستہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں دنیاوی ترقی انسانی جانوں سے بڑھ کر ہے؟

مشہور سوشیالوجسٹ ایمیلی درکھیئم نے 1885 ء میں خودکشیوں پرجو تحقیق کی تھی وہ اب تک سوشیالوجی کی کتابوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والوں میں پروٹسٹنٹس کے مقابلے میں خودکشی کا رجحان کم ہے۔جس کی وجہ ان میں سماجی کنٹرول اور آپس میں ہم آہنگی کا ایک مضبوط شکل میں موجود ہونا بتایا گیا۔

درکھئیم مزید لکھتے ہیں خود کشی رشتے میں منسلک لوگوں کی نسبت سنگل لوگ زیادہ کرتے ہیں اور وہ لوگ جن کے بچے ہیں ان میں بھی یہ تناسب کم دیکھا گیا ہے۔ ان کے مطابق خود کشی صرف انفرادی نفسیاتی مسائل سے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے دیگر بہت سارے سماجی عوامل ہوتے ہیں۔سماجی انضمام اور آپس میں میل جول سے اس میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

جس طرح پانامہ کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے ابتدا میں ’گاڈ فادر ‘ناول کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ’’ہر عظیم قسمت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے‘‘۔ مجھے اسی طرح ہر خود کشی کے پیچھے ایک قاتل نظر آتا ہے چاہے وہ والدین کی شکل میں ہو، خاندان یا معاشرے کے کسی فرد کی شکل میں ہو، خود معاشرہ ہو یا پھر معاشرتی، مذہبی و سیاسی پالیسیاں بنانے اور ان کو لاگو کرنے والوں کی شکل میں ہوں۔بقول شاعر:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ہم اکثر کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے خود کشی کر لی۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوال پوچھا ہے کہ فلاں شخص سے خود کشی کروائی تو نہیں گئی؟ کیوں کہ خود کشی کرنے اور خود کشی کروانے میں بہت فرق ہوتا ہے اور جب تک ان میں تمیز نہیں ہوگی ہم حقائق تک نہیں پہنچ پائیں گے۔

گزشتہ دنوں محترم نور پامیری نے اپنے ایک کالم میں سابق آئی جی گلگت بلتستان سرمد سعید صاحب کی جس بات کا حوالہ دیا تھا یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے۔ سرمد سعید صاحب کہتے ہیں غذر میں خود کشوں کی سماجی محرکات اپنی جگہ مگر خوراک اور پانی پر بھی تحقیق ہونی چاہئے۔کچھ کمیکلز کی مقدار اگر پانی میں زیادہ ہو تو انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ جس سے خود کشی کے امکانات بہت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔انھوں نے پانی اور خوراک میں گولڈ کلورائید اور سیروٹونن کی مقدار کو فوری چیک کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے حکومت، اے کے ڈی این اور دیگر اداروں کو خاموش تماشائی بننے کے بجائے اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید تماشا دیکھنا انسانیت کی توہین کے مترادف ہوگا۔

مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اْٹھا کیوں نہیں دیتے

خود کشی کے واقعات کو مکمل کنٹرول کرنا کسی صورت ممکن نہیں البتہ ان میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلا اور فوری کام یہ ہونا چاہئے کہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ایک مکمل اور تفصیلی تحقیق شروع کی جائے۔جس کے لیے اہم اداروں اور ماہرین کی خدمات لی جائیں۔ حکومت اس حوالے سے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔حکومتی دلچسپی اس مقصد کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ضلع غذر میں ہونے والی خود کشیوں کی اگر بات کی جائے تو بد قسمتی سے حکومت کے ساتھ ساتھ یہاں سے منتخب ہونے والے عوامی ممبران کا کردار بھی انتہائی مایوس کن رہا ہے۔کاش یہ اس بات کو سمجھ پاتے کہ کوئی لنک روڈ اور کلوٹ بنانے کے پیچھے لگے رہنے سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ عوام کیونکر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ کیسے ان واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ انھیں اس بات کا شعور کا نہیں یا پھر انہیں انسانی جانوں کی ضیاع سے کوئی خاص سروکارنہیں ہے۔

مجھے تعجب اس بات پر بھی ہے کہ اتنے واقعات پے در پے رو نما ہو رہے ہیں مگر عوام کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آرہا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عوام نے ان خود کشیوں کو باقاعدہ قبول کر لیا ہے۔ سوشل میڈیا میں مخصوص مدت کے لیے شور اٹھنے کے علاوہ کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ تبدیلی خود کو خود کی سوچ کو بدلنے سے آتی ہے اس ناسور کے بر وقت روک تھام کے لیے آواز اور اقدامات نہیں اٹھاؤ گے تو یونہی دریا، پھندوں اور کسی بند کمرے میں پڑی خون میں لت پت لاشیں اٹھاتے رہو گے۔

سب جانتے ہیں کہ یہاں نفسیاتی مسائل لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ ہیں مگر پورے علاقے میں کوئی کلینیکل ماہر نفسیات اور دماغی علاج کا ماہر ڈاکٹر موجود ہے اور نہ ہی کبھی ایسا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی امراض پر بات کرنے سے ڈرنے کے بجائے علاج کے لیے سامنے آنا ہوگا۔مسائل خاموش رہنے سے بڑھتے ہیں حل نہیں ہوتے اور اگر خودکشی کو آپ جرم سمجھتے ہو تو اس جرم کے خلاف جس قدر دیر سے آواز اٹھاؤ گیس قدر ہی زیادہ نقصان اٹھاؤ گے۔ حضرت امام حسین علیہ سلام فرماتے ہیں۔

’’ظلم کے خلاف جتنا دیر سے اٹھو گے اتنا زیادہ قربانی دینی پڑے گی‘‘۔

ایک اور اہم نکتہ جس پر بات ہمیشہ کم ہی ہوئی ہے کہ غذر میں جن واقعات کو خود کشی کا نام دیا گیا ہے کیا وہ تمام واقعات خود کشیاں ہی تھیں؟ کہیں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو بھی خود کشی کا نام تو نہیں دیا جا رہا؟ اور کیا پولیس اور تفتیشی ادارے ایسے واقعات کی تفتیش ٹھیک طریقے سے انجام دیتے ہیں؟

شعور و آگہی کے پروگرامز یا تو نہ ہونے کے برابر ہیں یا پھر اس حوالے سے مواد اور ماہرین کی عدم موجودگی اس راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔لوگوں کو فیملی اور انفرادی کونسلنگ کے بارے میں کوئی معلومات ہی نہیں۔ ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال، انتہائی دباؤ اور تنہائی بھی انسان کو خود کشی کی طرف لے جاتے ہیں۔

جنریشن گیب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ تبدیلی او رجدیدیت کو بھی انجکشن کی طرح لگا دیا گیا ہے۔ تبدیلی اور جدیدیت کے آنے اور اسے انجیکٹ کرنے میں بہت فرق ہوتاہے. یقیناہم اس وقت جس تبدیل شدہ ماحول میں پل رہے ہیں دیگر قوموں کو اس ماحول تک آنے میں صدیاں لگ گئی ہیں۔کچھ مشکلات اس ’’اچانک تبدیلی‘‘ کے مرہون منت بھی ہو سکتے ہیں۔

نئی نسل بیک وقت بہت ساری چلینجز سے نبرد آزما ہے۔ نوجوانوں کو ان مشکلات اور گھٹن سے نکالنے کے لیے غیر نصابی اور کھیل کود کی سرگرمیاں انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ سپورٹس ڈپارٹمنٹ مردہ گھوڑے کی طرح بے حس پڑا ہے۔کھیلوں کے میدان ویران اور دیگر تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔بے روزگاری اپنے انتہا کو چھو رہی۔ملازمتوں سے غریبوں کو دور رکھا جا رہا ہے۔تین لاکھ دو ملازمت لو کی جو روایت قائم کی گئی تھی وہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ بس انداز، طریقے اور چہرے بدل گئے ہیں۔ بے روزگاروں کی نہ صرف فوج بن رہی ہے بلکہ سولہ جماعتیں پاس کرنے والے گریڈ پانچ اور سات کی پوسٹوں کو بھی ترس رہے ہیں۔

عوام اور غیر سرکاری اداروں کی طرح حکومتی شترمرغ پالیسی مزید مسائل کو جنم دے رہی ہے۔خیر ویسے بھی نواز لیگی حکومت غذر سے اپنے پرانے بدلے نکالنے میں مصروف عمل ہے مگر خدا را اتنے انسانی جانوں کی ضیاع پر تو اس دشمنی سے باہر نکل آؤ۔ ہو سکتا ہے روز محشر آپ سے بھی سوال ہو۔خیر لوگ تو مرتے اور جیتے جی بھی مرتے رہتے ہیں مگر بات اقتدار اور کرسی کی ہونی چاہئے جو روز روز نہیں ملتی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ) سے اس بارے میں پوچھ ہو گی‘‘۔ کیا ہی بات تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جنھیں ایک کتے کے پیاسے مرنے کی فکر تھی مگر یہاں تو ایک چھوٹے سے ضلع میں اڑھتالیس گھنٹوں میں چار لوگ اپنی زندگیوں کا چراغ گل کر دیتے ہیں۔حکمران اف تک نہیں کہتے اور حقائق جاننے کی زحمت تک نہیں کرتے۔ اگر تھوڑے سے بھی سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں تو "خود کشی” کرنے والوں کو "خود خوشی” کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔ بس اس کے لئے بغض، نفرت، علاقائیت، مسالک اور سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔کاش ایسا ممکن ہوتا۔

غریب شہر تو فاقے سے مرگیا حاکم
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button