دریائے غذر کے پہلو بہ پہلو
فکرونظر: عبدالکریم کریمی
گوپس کے شروع میں گاؤت گاؤں کے نشیب میں دریائے غذر یا دریائے سندھ کی خوبصورتی دیکھنے لائق ہے۔ یہاں دریا جس طرح تیزی سے نیشب کی طرف بہتا ہے وہاں ہاکس گاؤں کے سامنے دریا کا پاٹ جہاں وسیع ہوتا ہے وہاں لگتا ہے کہ یہ دریا باسیانِ غذر کی طرح اپنے مہمانوں کا دل کھول کر استقبال کر رہا ہے۔ خلوص و محبت سے لبریز ان موجوں سے بغلگیر ہونے کو دل کرتا ہے۔ وہ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا ہے؎
خلوصِ دل سے اگر موج بھی پکارے مجھے
قسم خدا کی کنارے سے لوٹ آؤں گا
لیکن ڈر بھی لگتا ہے کہ غذر ویسے بھی خودکشیوں کے حوالے سے بدنام ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہاں لوگ نمونیہ ہوکر بھی کیوں نہ مرے اس کو خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ فطرت سے محبت کرنے والوں کو خودکشی کا نام دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ویسے فطرت سے محبت کی پاداش میں آج ہمارا دل بھی بہت چاہ رہا تھا کہ ان موجوں سے بغلگیر ہوجائے پھر ہمیں ہمارے کچھ ستم ظریف دوست یاد آگئے کہ ہمارے اس طرح ان موجوں کی نذر ہونے سے ہمارے دوست اپنی جگرپاش اور کاٹ دار تحریروں میں ایک دفعہ پھر یہ کہتے ہوئے نمودار ہوں گے کہ غذر میں اسلامی تعلیمات کی کمی کی وجہ سے ایک نوجوان عالم دین دریائے غذر کی لہروں کی نذر ہوگئے اور خودکشی کی۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ خودکشی نہیں فطرت سے پیار کی ایک نشانی بھی ہوسکتی تھی لیکن ان دوستوں کو سمجھائے کون۔ ہم تو ان موجوں کے ساتھ بہت دور جا چکے ہوں گے۔ خیر یہ بات از راہِ تفنن بیج میں آگئی۔
ویسے یہ غذر ہو، سکرود ہو یا گلگت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کئی بار دریائے سندھ کے ٹھنڈے ٹھار پانی میں پاؤں بھگو کر سرشار ہونے، دریا سے باتیں کرنے اور ان کی اچھلتی کودتی لہروں میں اپنی یادیں بہانے کا موقع ملا ہے۔
یوں تو دریا کا استعمال کلسیکی شاعری اور ادب میں کم کم ہے لیکن جہاں جہاں ہے بے مثال ہے۔ دریائے چناب نہ ہوتا تو شاید ہیر رانجھا کی کہانی بھی نہ ہوتی۔ اسی طرح چار سو برس پہلے کے ہندوستان میں دور دراز بخارا سے ایک قافلہ آیا اور چاروں طرف گھومتا گھامتا دریائے چناب کے کنارے پہنچ گیا جہاں گجرات کا خوبصورت شہر بسا ہوا ہے۔ چناب کی لہروں نے پیار کے گیت گائے، گجرات کے شہر نے اپنی محبت بھری بانہیں پھیلائیں اور قافلہ شہر پہنچ گیا۔ میرزا عزت بیگ یوں تو ایک سوداگر ہے لیکن ان کے سینے میں ایک عاشق کا دل ہے۔ جب وہ گلی کے نکڑ پر پہنچا تو انہوں نے ایک میٹھی اور محبت بھری آواز سنی۔ یہ آواز سوہنی کی تھی۔ سوہنی اور میرزا عزت بیگ جو سوہنی کے عشق میں مہیوال کا روپ دھارا چکے تھے۔ دریائے چناب کے کنارے پنپنے والی ان کی کہانی ایک داستانِ الم سناتی ہے۔ اس لیے جب جب ہیر رانجھا کی محبت کا تذکرہ ہوگا اور سوہنی مہیوال کا ذکر چھڑے گا دریائے چناب کے کناروں اور ان کی بے رحم موجوں کا بھی تذکرہ ہوگا۔ اسی طرح دریائے سندھ بھی اپنے سینے میں یہاں کی تاریخ کا ایک خزانہ رکھتی ہے۔
سکردو کے ہمارے دوست ڈاکٹر انجم نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا دیباچہ میں نے لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے دریائے سندھ کی آپ بیتی لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کھرپوچو قلعہ کے نشیب میں بہتا دریا کہتا ہے کہ میں نے تو وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ڈوگروں نے اس قلعے پر قبضہ کیا تو مسلمان شہزادیاں ڈوگرہ فوج کے ظلم و ستم سے بچنے اور اپی عزت بچانے کے لیے دریائے سندھ میں کود کر ہماری آغوش میں ابدی نید سو گئیں تھیں پھر جب مسلمان انیس سو اڑتالیس کی جنگ آزادی کی صورت میں دوبارہ اس قلعے پر قابض ہوئے تو پھر ڈوگرہ راج کی شہزادیوں نے مسلمان فوج کے خوف سے دریائے سندھ میں چھلانگ لگائی تھییں۔ دریائے سندھ کرب سے کہتا ہے ’’سمجھ نہیں آتا ہر ظلم و ستم کا نشانہ ایک عورت ہی کیوں بنتی ہے۔‘‘ بس دریا کی زبان سمجھنے کی بات ہے۔ جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بشیر بدر نے خوب ہی کہا ہے؎
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
ہمیں دریا سے محبت شاید اس لیے بھی ہے کہ بقول فرحت احساس ہمیں اپنے محبوب کا چہرہ دریا کے پانی میں نظر آتا ہے؎
چاند بھی حیران، دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے
بے خیالی میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ کھڑے تھے دریائے گوپس کے کنارے اور اشہبِ خیال نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ کہنا کیا ہے اور ہم کہہ کیا جاتے ہیں۔ احمد فراز کی طرح بھولنے کی عادت چھٹتی نہیں۔ وہ بھی تو کتابوں میں پھول رکھ کر بھول جایا کرتے تھے۔ کہہ گئے؎
اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملے
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے