کالمز

محکمہ تعلیم پھر سے سیاسی اکھاڑہ؟

شریف ولی کھرمنگی
وزیر مصوبہ بندی اقبال حسن حلقہ نمبر پانچ کھرمنگ کے نمائندے ہیں۔ انکی حکومت میں ضلع کھرمنگ کا قیام اور اسکے بعد محکمہ تعلیم میں سیاسی مداخلت نا ہونے کے دعوئے گزشتہ حکومتوں کی نسبت قابل قدر رہی ہے۔ نون لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع افراد کی حکومت کواب تین سال مکمل ہوگئے۔ دو سال تک اس حکومت کے بنوانے والے سابق قاف لیگیوں، پی پی والوں، علما کونسل والوں نے وہی کھیل جاری رکھا جو پہلے اسی گروہ اور گروہ مخالف کی حکومتوں کا وطیرہ تھا۔ غیر قانونی بھرتیوں سمیت گزشتہ ادوار میں دس سے پندرہ سال تک منظور نظر افراد کو ہوم سٹیشن پر رکھا گیا، اور اتنے ہی عرصے سے مخالفین کو نالہ جات میں۔ اس کام میں علاقے کے دونوں ہی گروہ ملوث رہے۔ گو کہ پچھلے تعلیمی سال کے آخر میں ماہر تعلیم اور اصول پسندی میں معروف استاد محترم غلام محمد حیدری صاحب کو ضلع کھرمنگ کا نائب ناظم تعلیمات تعینات کردیا تھا، مگر پرانے طور طریقے سال 2017 کے کئی مہینے گزر جانے تک تک ختم نہیں ہوسکے جسکی وجہ ڈی ڈی کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے دینا واضح تھا۔  ڈی ڈی صاحب نے سال کے شروع سے ہی اساتذہ کے تبادلے کروا کے علاقے میں تعلیمی اصلاحات کا جو پروپوزل بھیجا اسکوانہی سیاسی افراد نے اعلیٰ حکام تک سفارشات کے ذریعے رکوادیئے۔  یہاں تک کہ گرمیوں کی چھٹیوں سے چند ہفتے قبل عوامی دباو سے انکے پروپوزل ڈائریکٹر اور سکریٹری سے ہوتے ہوئے بالآخر منظوری کی نوبت تک پہنچ ہی گئی۔ مگر بات رکی نہیں۔

یکے بعد دیگرے دو علاقوں میں ٹیچرز ٹرانسفرز کے بہانے پر ڈی ڈی صاحب پر انہی افراد نے ہاتھ اٹھوایا۔ انکے خلاف بچوں سے نعرے بازی کی گئی۔ انکو نازیبا الفاظ کہے گئے۔ ان سب کے باوجود علاقے کے نمائندے نے کئی بار اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ محکمہ تعلیم کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھیں گے جس پر انکے مخالفین سمیت سب نے شاباشی دی۔ اب گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ کے دورہ بلتستان کے دوران کھرمنگ کے نون لیگی وفد نے علاقے کے نمائندے کی قیادت میں وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جو مطالبات سامنے آئے اس نے انکے گزشتہ بیانات کی بھی قلعی کھول دی۔ ڈی ڈی کی اصلاح پسند اقدامات کے خلاف پس پردہ جاری سازشوں کا سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ جب دوسرے علاقوں میں ترقیاتی کاموں اور تحصیل و سب ڈویژن بنانے کے مطالبے ہوئے تو کھرمنگ کے حکومتی جماعت وزیر اعلیٰ کے پاس یہی بات لیکر پہنچ گئے کہ بلتستان بھر میں سینئر، اصول پسند اور قابلیت میں بھی بے مثال سمجھے جانیوالے ڈی ڈی صاحب کا یہاں سے تبادلہ کرایا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ڈی ڈی کھرمنگ حیدری صاحب کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ انہوں نے گھر بیٹھ کر سرکار سے تنخواہ لیکر بچوں کو کھلانے والوں اور والیوں کو سکولوں میں بلا کر اپنی تنخواہ حلال کرنے پر مجبور کر دیا؟ جو من مانی کرکے کئی کئی سالوں سے ایک ہی سٹیشن پر براجمان تھے انکو اٹھا کر دوسرے سکولوں میں بھیج دیئے؟ سیاسی آشیربادی لیکر افسر بنے جونیئر ٹیچروں کی جگہ سینئر اور انتظامی صلاحیت رکھنے والوں کو تعین کروادیئے؟ اور ہائیر سکینڈری سکولز ، ہائی سکولز سمیت دور دراز کے سکولوں میں طلبا اور مضامین کی ضروریات کے لحاظ سے ٹیچرز کو ایڈجسٹ کیا؟ یا کچھ اور؟ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت محکمہ تعلیم میں تبادلے کرنے کا فل مجاز ڈی ڈی صاحب خود کہیں بھی نہیں۔ وہ گریڈ 16 سے نیچے کے ملازمین اور اساتذہ کے تبادلے کرسکتے ہیں سولہ اور اس سے اوپر کی تمام پوسٹوں پر ڈی ڈی صرف سفارشات اپنے اعلیٰ افسران تک پہنچانے کا مجاز ہے وہی تبادلے کا حکم دے سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ یعنی کہ کھرمنگ کے جن سیاسی عناصر کو ان پر اعتراض ہے وہ نچلے گریڈ کے ملازمین اور 16 گریڈ سے نیچے کے اساتذہ کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ جبکہ یہی افراد پہلے چیف سکریٹری کے دورے کے دوران ڈی ڈی کے اختیارات کو محدود کروانے کا مطالبہ منواچکے تھے۔ جس کے تحت ٹیچروں کے تبادلے کا اختیار ڈی ڈی کی بجائے کمشنر بلتستان کو تفویض کروایا گیا۔

دوسرا اہم معاملہ جس پر کھرمنگ کے جوانوں اور سماجی فکر رکھنے والوں کو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ان مطالبات کے کرنے والے خود کون لوگ ہیں؟ کیا یہ کھرمنگ کے سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لئے اتنے مخلص ہو بھی سکتے ہیں؟ سوال غور طلب ہے۔ علاقےمیں ہر کوئی جانتا ہے کہ کون کونسی فیملیز کب کب سے سکردو میں مستقل رہائش پزیر ہیں۔ انہی سرکردوں میں سے اکثر کے بچوں اور پوتوں نواسوں نے بھی کھرمنگ کے سکولوں میں کبھی کلاس نہیں لی۔ یہ سکولوں میں جاتے بھی ہیں تو سیاسی دورے کیلئے۔ ورنہ انکو کوئ فرق ہی نہیں پڑتا کہ سکولوں میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں۔ اور یہ معاملہ آج کا نہیں۔ بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے یہی کھیل کھیلاجاتا رہا ہے۔ وہی لوگ علاقے کے معاملات میں ٹانگ انگڑاتے ہیں جو عملا مستقل علاقہ بدر ہوچکے ہیں۔ چاہے محکمہ صحت ہو، تعلیم ہو، تعمیرات ہو، یا سیاسی و انتظامی امور۔ بعضوں کے تو آبائی علاقوں میں رہنے کے قابل گھر بھی نہیں۔ مگر سیاسی جوڑتوڑ اور مفادات کیلئے پورے علاقے کا ٹھیکیدار یہی بنتے ہیں۔ کیا علاقے کے اہل فکر کو یہی روش پسند ہے اور سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی کرے تو انکے بچے اچھے پڑھیں گے،بچوں کے رزلٹ اچھے آجائیں گے اور انہی کے کہنے پر چلنے سے تعلیمی نظام بہتر ہوجائیگا؟

وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی صاحب اور کھرمنگ حلقہ پانچ کے نمائندے اقبال حسن صاحب کا امتحان ہے۔ وہ اس گندی سیاست زدگی کا شکار ہوکر چند افراد کے مطالبے پر علاقے کو پھر سے پرانی روش پر ڈال کر اپنی جماعت اور سیاست کا حشر نشر پی پی جیسا کرتے ہیں یا نئی نسل کی مستقبل کی خاطر اداروں میں بیجا مداخلت سے باز رہنے کے اپنے دعووں کا مان رکھ کر سرخرو ہوتے ہیں۔ وزارت اور اقتدار ہمیشہ رہنے والی چیزیں نہیں۔ وفاق میں حکومت کے خاتمے کیساتھ ویسے ہی نون لیگی حکومت کیلئے وقت پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب سیاسی مداخلت کرکے اپنی رہی سہی ساکھ بھی برباد کرنا یقینا عقلمندوں کا شیوہ تو نہیں۔ ہاں اگر ایسا کرگزرنے کی ٹھان ہی لی ہے اور خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ تک کو قائل کرلیا ہے تو کوئی اس فیصلے سے روک تو شاید نا سکے مگر آئندہ ایسے اقدامات پر عوامی رد عمل اور نئی نسل کی بربادی کے ذمہدار قرار پانے سے بھی کوئی طاقت یقینا نہیں روک سکے گی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button