جارج ہیورڈ کے قتل کے بعد یاسن کی مجموعی سیاسی صورتحال ۔۔۔
تحریر :ظفر اقبال
جارج ہیورڈ ١٨ جولائی سن ١٨٧٠ کی صبح اٹھ بجے کے قریب درکوت فرگ بر میں اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ قتل ہوئے۔جس کا تفصیلی تذکره میں نے اپنے گزشتہ کالم میں کر چکا ہوں،اس کے قتل کی اصل وجہ پائنیر ارٹیکل بنی تھی،مظلوم قوم پے بیتے ہوئے ظلم کی داستان لکھ کر جود بھی اس داستان کا حصہ بن گئے۔
والئ یاسن میر ولی کو ہیورڈ کے قتل کے حوالے سے مہاراجہ رنبیر سنکھ کے احکامات جب موصول ہوئے تھے، تب میر ولی نے وزیر ،،رحمت ،،کو اعتماد میں لئے بغیر اپنے کچھ قریبی رفقا کو ساتھ ملا کر منصوبے کو حتمی شکل دے دیا تھا۔اس وجہ سے فریق کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بے عتباری اور نفرت پیدا ہو گئی تھی،
رحمت وزیر چالاک ادمی تھا۔اعتماد کی اس فقدان کی وجہ سے رحمت وزیر اور میر ولی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ،وزیر رحمت نے در پردہ ایک سازش تیار کی ،اور کسی بہانے سے اپنے بیٹے کو مستوج روانہ کیا، اور پلاون بخدور(پہلوان بہادر) کو جلد از جلد یاسن پر حملے کے لئے آماده کیا،یہ غالباً اگست ١٨٧٠ کے آخری ایام تھے،منصوبے کے تحت ایک سہ پہر کو رحمت وزیر اپنے گھوڈے کو ہانکتا ہوا برکلتی قلعے میں پہنچا ،جہاں راجہ میر ولی اپنے رفقا کے ساتھ موجود تھے،رحمت وزیر نے جلدی جلدی میں پہلوان کی لاو لشکر سمت لنگر پہنچنے کی خبر سنا دی۔اس اچانک اور غیر متوقع جبر نے میر ولی کے آوسان خطا کئے،رحمت کے مشورے پر میر ولی اپنے خاندان اور کچھ قریبی رفقا کے ہمراہ بدخشان کی طرف نکل گئے۔یوں رحمت وزیر کے حکمت عملی نے کام دکھایا اور بغیر کسی خون خرابے کے پہلوان تخت یاسن پر برجمان ہوئے۔
پلاون بخدور نے میر ولی کے تعاقب میں ایک دو پڑاو تک اپنے عربی نسل کے گھوڑوں کو لگا دیا، لیکن وہ ہاتھ نہیں آئے،میر ولی بدخشان میں پناه گزین ہوئے،لیکن سرکار انگلشہ کی مداخلت پر امیر بدخشان نے میر ولی کو پناہ دینے سے انکار کیا،
وہاں سے فرار ہونے کے بعد چترال میں اپنے ماموں مہتر امان الملک سے رحم کے طلب گار ہوئے،میر ولی کے ہمراہ اسکا ایک خدمتگار جس کا نام بوبوکو تھا،ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔بوبوکو کا تعلق پونیال سے تھا ،بہت سے یورپین مورخین نے بوبوکو کی تعریف کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ بوبوکو پست قد ادمی تھا ،لیکن تھا بڑا بہادر،اپنے اقا پر ہمیشہ جان نچھاور کرنے کے لئے ہما وقت تیار رہتا تھا۔میر ولی چترال میں مقیم تھا ،پہلوان بہادر کے ادمی چترال میں اس کے تعاقب میں تھے،یقیناً ان کو احکامات پہلوان کی طرف سے مل چکے تھے،
صحیح وقت کو پہلاون کے ادمیوں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ایک کیلاش نوجوان کے ہاتھوں میر ولی چترال میں قتل ہوئے۔کہتے ہیں کہ زخمی حالت میں میر ولی نے چند اشعار بولے تھے۔(ما مرینان سوتارا ۔۔شا خبر بیر چترارا)۔۔۔۔
حملے کے وقت میر ولی نے اپنے انگريزی پستول سے دو حملہ آورں کو مار دیا۔لیکن تیسرے ادمی نے گولی چلائی جو مہلک ثابت ہوئی۔حملے کے وقت بوبوکو موجود تھا۔میر ولی کو بچانے کی انتھک کوشیش کی لیکن کارگر ثابت نہیں ہوئی۔پہلوان بہادر کے ہاتھوں میر ولی چترال میں قتل ہو چکے تھے۔
ادھر یاسن میں حالات بدستور کشیدہ تھے۔سرکار انگلشہ نے ہیورڈ کی لاش درکوت سے گلگت منتقل کی۔پہلوان نے لاش حوالگی کے سلسلے میں انگريز سرکار سے تعاون کیا۔پہلوان مستوج سے اشکومن تک تان بان سے راج کرتا رہا۔گلگت میں اس وقت پولیٹکل ایجنٹ جان بڈلف تھے۔
جون ،جولائی سن ١٨٨٠ میں یسن کی سیاست تیزی سے تبدیل ہونے لگی۔مہتر امان لملک نے پہوان کے زریعے اقوام داریل و تنگیر سے مل کر ایک خوف ناک اتحاد قائم کیا، اور گلگت پر حملے کے لئے حالات سازگار بنا لئیں۔
موسم گرما کے اغاز میں ہی یاسن داریل و تنگیر نے پونیال پر حملہ کر دیا۔لاو لشکر سمت علاقوں کو تخت و تاراج کرتا ہوا پہلوان شیر قلعہ پہنچ گیا۔
پہلوان کی اس مجنونانہ حرکت میں امان لملک نے حوصلہ افزائی کی اور اپنی طرف سے کمک کا وعدہ بھی کیا تھا۔لیکن عین موقعے پر وعدہ وفا نہیں کر سکا۔جب یاسن والے شیر قلعہ کو فتح کرنے میں لگے ہوئے تھے۔امان الملک نے اپنی چال چلی اور خفیہ طور پر اپنے بڑے بیٹے نظام الملک کو لشکر سمت یاسن پر قبضہ کرایا۔اسی اثنا میں راجہ اکبر خان نے اپنی چال سے داریل والوں کو یاسن کی اتحاد سے توڑ لیا۔عین موقع پر گلگت سے جنرل ہوشیارہ کی کمک بھی پہنچ گئی۔ان حالات کا سامنا پہلوان نہیں کر سکے اور سنگل نالے کے راستے یغستان فرار ہوئے۔جہاں مہتر امان الملک کے ایماء پر اپنے بڑے بھائی ملک امان کے ہاتھوں قتل ہوئے۔جسد خاکی کو یاسن پہنچایا گیا ،اور طاؤس چوترنگ میں اپنے والد کے پہلو میں آسودہ خاک ہے۔١٨٨٠ میں نظام الملک یاسن کے حاکم مقرر ہوئے۔
نظام یاسن کی سیاست میں نیک نامی میں مشہور نہیں ہوئے ۔انگريز تاریخ دان نظام لملک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ ہم جنس پرست تھے۔اور غلاموں کی تجارت کرتا تھا۔اُس کے دوُر حکومت میں یاسن سے بہت سارے بچوں اور خواتین کو یارقند میں فروخت کئں گئیں ۔مہتر امان الملک نے اپنی دیرینا خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہے۔تاریخ میں پہلی دفعہ امان الملک نے یاسن پر قبضہ کر کے اسکو اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا۔
جب تک امان الملک چترال کے حکمران رہے یاسن کی سیاسی ڈور اُسی کے ہاتھوں کے رہی۔١٨٩١ کی موسم بہار میں جب کرنل ڈیورینڈ چترال کے دورے پر گوپس پہنچا تو کئی پڑاؤ تک نظام اُس کے استقبال کے لئے چلے گئے۔
حالات نے تب کروٹ بدلی جب ١٨٩٢ میں مہتر امان الملک چترال میں فوت ہوئے۔اسی کے ساتھ چترال میں تخت کی جنگ شروع ہوئی ۔اور پورا ملک سول وار کی لپیٹ میں ا گیا۔افضل الملک چترال کے حکمران مقرر ہوئے اور طاقت کے نشے میں یاسن پر بھی حملہ کر دیا۔لیکن حملے سے قبل نظام خاندان سمت گاہکوچ قلعے میں پناہ گزین تھے۔
ورشگوم ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔١٨٩٣ میں نظام الملک انگريزوں کی مدد سے چترال پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔یاسن میں اُن عشروں میں مقدس امان اور محمد ولی یکے بعد دیگرے حکمران رہے۔لیکن ملک بدستور عدم استحکام کا شکار رہا۔١٨٩٥ میں راجہ شاہ عبد الرحمان خان جو کہ پہلوان بہادر کا بیٹا تھا ۔حاکم یاسن مقرر ہوئے ۔یہ حکمران ١٨٦٣سے پہلے کی طرح خودمختار حکمران نہیں ہوتے تھے ،بلکہ ڈوگروں کی طرف سے مقامی گورنر مقرر ہوتے تھے۔سن ١٩١١ میں شاہ عبدالرحمان خان گرفتار ہوئے اور سری نگر میں قید ہوئے۔
پونیال سے عسیٰ بہادر کے بیٹے صفت بہادر یاسن کا نیا گورنر مقرر ہوئے۔انہوں نے ڈورکھن جو ریاست ورشگوم کا پایہ تخت تھا نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔قلعے میں بڑے بڑے برج تھے جن کو گرایا گیا۔
صفت بہادر کے دور اقتدار میں پہلی دفعہ دشت طاوس کی اباد کاری کے لئے نازبر سے نہر کھودا گیا۔یہ نہر انتہائی سنگلاخ چٹانوں سے گزرتا تھا۔دوران کھودائی تین مزدور پہاڈ سے گر کر جان بحق ہوئے ۔
صفت بہادر گرفتار ہوئے ۔یہ ١٩٢٢ کا دور تھا۔
ایک سال کے لئے مولوی غلام محمد کو حاکم یاسن مقرر کیا گیا۔لیکن ١٩٢٣ کو راجہ شاہ عبدالحمان خان رہا ہوئے اور اپنے سابقہ راج دہانی پر بحال ہوئے۔یہ دور ١٩٣٣ تک قائم رہا۔١٩٣٣ سے ١٩٣٤ تک غفران اطلیق حکمران رہے۔لیکن ١٩٣٤ میں بروشے خاندان کے میر باز خان گورنر بنے، اور ١٩٤٠ کو اسکو معطل کر کے نگر سے میر شاہ سکندر کے اولاد محبوب ولی خان گورنر یاسن ہويے ۔اپنے انتقال محبوب ولی خان بدستور یاسن کے حکمران ریے۔اس کے بعد بٹھو مرحوم نے ایف سی ار کا خاتمہ کر کے غذر کو ضلع کا درجہ دے دیا۔یہاں سے ایک نئے دور کا اغاز ہوتا ہے ۔