گاڑیوں کی نیلامی کے بعد اگلی باری مہنگے ترین بنگلوں کی؟
تحریر: دردانہ شیر
وزیر اعظم ہاوس میں موجود مہنگی ترین گاڑیوں کی نیلامی شروع ہوگئی ہے اور پہلے ہی روز 64سے زائد گاڑیاں خریدی گئی اور دیگر گاڑیاں بھی بہت جلد خرید لی جائیگی غریب ملک کے امیر حکمرانوں نے جس انداز میں اس ملک کو لوٹا سے اس کی تفصیلات عوام تک پہنچنا شروع ہوگئی ہے وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے تو دوسری طرف یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ملک بھر میں سرکاری آفیسران کے لئے بنا ئے گئے مکانات جن پر کروڑوں روپے کی لاگت آئی ہے اور بعض سرکاری آفیسران کے مکانات کی سالانہ مرمت کی مد میں کروڑوں روپے کے آخراجات ہیں اور سینکڑوں ملازمین ان مہنگے ترین مکانات اور باغات کی نگرانی کر رہے ہیں اور ان ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ہی حکومت کے خزانے سے کروڑوں روپے ادا کئے جارہے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا ہے مگر ملک میں تبدیلی کے اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں روڈ پر ہر وقت نظر آنے والی سرکاری گاڑیاں اب صرف دفتری ٹائم پر ہی نظر آرہی ہیں اور اس سے قبل شادی بیاہ میں بھی سرکاری گاڑیوں کا استعمال ہوتا تھا اب ان میں بھی بڑی حد تک کمی آئی ہے اس وقت ملک میں ہزاروں کنال حکومت کی زمین بیکار پڑی ہے جس میں ریلوے سرفہرست ہے ان زمینوں کو بھی فروخت کرنے کا حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے اور جو آفسیران عالیشان کوٹھیوں میں قیام پزیز تھے حکومت نے ان کے لئے بھی ایک سے دو کنال زمین میں رہائشی مکانات تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور سینکڑوں کنال زمین میں کروڑوں روپے کے بنائے گئے سرکاری مکانات کی بھی بہت جلد نیلامی ہونے کا امکان ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم نے ملک کے واجب الدا قرضوں سے چٹکارہ پانے کے لئے ہر حد تک جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وزیر اعظم ہاوس کی گاڑیوں کی نیلامی اس کی پہلی کڑی ہے اگر وزیر اعظم ہاوس کی گاڑیاں نیلام ہوسکتی ہے تو ایسے میں چاروں صوبائی بلکہ گورنر گلگت بلتستان کے زیر استعمال مہنگی گاڑیوں کی نیلامی میں بھی تاخیر نہیں ہوگی اور ان مہنگی گاڑیوں کو بھی نیلام کیا جائیگا اس کے بعد وزراء اعلی کے زیر استعمال گاڑیوں کی باری آئیگی اور پھر بیورو کریسی کی گاڑیوں کی نیلامی ہوگی اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سرکاری آفیسران کو بارہ سو سی سی کی کاریں دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور ان کے زیر استعمال گاڑیوں کی بھی بہت جلد نیلامی ہوگی اطلاع یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کو بھی دو مہنگی گاڑیاں خرید نے کے لئے دس کروڑ روپے نواز شریف دور حکومت میں ملے تھے مگر صوبائی حکومت نے دو کی بجائے ایک گاڑی کی ڈیمانڈ کی تھی اور رقم بھی ادا کر دی گئی تھی اب وہ گاڑی بھی جی بی حکومت کو نہیں ملے گی کیونکہ ملک کے وزیر اعظم نے اپنے استعمال کی گاڑیاں نیلام کر دی ہے تو ایسے میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو پانچ کروڑ کی گاڑی خریدنے کی کسی صورت میں اجازت نہیں مل سکتی وزیر اعظم ہاوس کی گاڑیاں نیلام ہونے کے بعد اگلی باری صوبوں کی ہوگی جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ ان گاڑیوں کی نیلامی سے ملک کو اربوں روپے کا فائدہ ہوگا چونکہ اگر پانچ کروڑ ایک گاڑی کی قیمت ہے تو اس کی دیکھ بال اور مرمت پر سالانہ کتنا خرچہ ہوگا گلگت بلتستان میں بھی سرکاری محکموں کے لئے گزشتہ سات سے اٹھ سالوں کے درمیان تین ارب سے زائد رقم کی گاڑیاں خرید ی گئی جو کہ اس غریب صوبے کے عوام کے ساتھ ایک مزاق ہے حالانکہ گلگت بلتستان کے اپنے کوئی وسائل نہیں اور وفاقی حکومت اس صوبے کو ترقیاتی بجٹ کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے فراہم کر تی ہے اگر یہ رقم ترقیاتی کاموں میں خرچ ہوجاتی تو آج گلگت بلتستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا ایک طرف مختلف محکمہ جات نے کروڑوں کی گاڑیاں خرید لی تو دوسری طرف ان گاڑیوں اور فیول کی مد میں سالانہ حکومت کو کروڑوں کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں بہت جلد ملک کے دیگر صوبوں میں بھی مہنگے گاڑیاں استعمال کرنے والوں اور عالیشان مکانات میں بغیر ہاوس رینٹ ادا کرکے رہنے والے بعض آفسیران کا احتساب شروع ہوگا اور حکومت نے اگر خلوص نیت سے ان مہنگے بنگلوں کو ہی فروخت کر دیں تو ڈیم بنانے کے لئے چندہ مانگنے کی کی بھی ضرورت پیش نہیں آئیگی اس وقت صورت حا ل یہ ہے کہ اگر ہم نے پانچ سالوں میں ڈیم نہیں بنائے تو ہماری نصف کاشت شدہ زمین بنجر ہوجائیگی اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہو گا ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے ہم اپنے پانی کو سٹور نہ کرسکے اور ہمارا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوگیا پاکستا ن میں 1960 سے لیکر 1969تک ڈیم بنائے گئے اور یہ ڈیم اس وقت کے صدر محمد ایوب خان نے بنایا سب سے پہلے واسک ڈیم بنایا گیا 1961میں منگلا ڈیم بنا 1962سملی اور راول ڈیم بنائے گئے 1963میں حب ڈیم 1968تربیلا ڈیم اور آخری ڈیم 1969میں خان پور ڈیم بنایا گیا اس کے بعد پاکستان میں جو بھی حکمران آیا ملک میں ڈیم بنانے کا سوچا بھی نہیں دس سالوں کے دوران سات ڈیم بنائے گئے اوراس وقت ہمارے ملک کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں تھے اور 1965کی جنگ سے ہماری معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا تھا اس کے باوجود ہماری قوم نے ڈیم بنائے آج دیامر بھاشا ڈیم بنانے کی بات ہورہی ہے تو بعض سیاسی لیڈر کہتے ہیں کہ ملک کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ دیامر بھاشا ڈیم بنا سکے اب ان سیاسی لیڈروں کو کون سمجھائے کہ اپ نے اپنے دور میں تو ملک کے لئے کچھ نہیں کیا اب عمران خان اس ملک کی بہتری کیلئے سوچتا ہے اور عوام کے فلاح وبہبود کے کام کرتا ہے تو اپ کو تکلیف کیوں ہوتی ہے پچاس سال تک ملک میں ایک بھی ڈیم نہ بننا ہماری بدقسمتی ہے اور دیامر بھاشا ڈیم وقت کی ضرورت ہے اگر اس ڈیم کو بنانے میں بھی ہم نے تاخیر کی تو 2025کے بعد نہ صرف ہمیں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہوگا بلکہ ہماری نصف کاشت کی زمین بنجر ہوجائیگی جو کسی طرح بھی ملک کے لئے نیک شگون نہیں عوام کی بہت ساری توقعات موجودہ حکومت سے وابسط ہے اور عوام کو یقین بھی ہے کہ اگلے چار سے پانچ سالوں کے دوران دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچ جائیگی جس سے ہمارا ملک ترقی کی ایک راہ پر گامزن ہوگا