کالمز

گلگت بلتستان میں کینسر کا پھیلاؤ

تحریر: صفدر علی صفدر

گلگت بلتستان ایک طرف قدرتی حسن،متنوع  ثقافتوں، زبانوں اورنسلوں کا گھر ہے تو دوسری جانب یہ خطہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق انگنت مسائل کا گڑھ بھی ہے۔ خطے میں بقائے انسانیت سے جڑے چیدہ  چیدہ  مسائل میں گندم اور دیگر غذائی اجناس کی پیداواری صلاحیت کا فقدان، توانائی بحران، بنیادی طبی سہولیات   اورپینے کے صاف پانی کی  عدم دستیابی سرفہرست ہیں۔ ان مسائل کی کھوکھ سے جنم لینے والی بیماریاں معصوم  انسانوں کو  اندر سے دیمک کی طرح  ایسے چاٹ  رہی ہیں کہ جس کی خبر ہونے  تک انسان موت  کے منہ میں جا چکا ہوتا ہے ۔

کینسر ان مہلک ترین امراض میں سے ایک ہےجو گزشتہ چند سالوں سےگلگت بلتستان میں انتہائی تیزی سے پھیلتا جا رہاہے۔ اس مرض کا اس قدر تیزی سے پھیلاؤ یہاں کے باسیوں کے لئے باعثِ تشویش اورحکمرانوں کے لئےباعثِ  فکر ہے۔ چار فروری کو کینسر سے آگاہی و بچاؤ کے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ماتحت حال ہی میں قائم (گلگت انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلئیر میڈیسن آنکولوجی اینڈ ریڈیوتھراپی ((GINOR عرف عامِ میں گلگت کینسرہسپتال مناور میں منعقدہ ایک سمینار میں کینسر کے مریضوں سے متعلق  چونکا دینے والے اعدادوشمار  سے حکومت وقت کی اس مرض کی جانب فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔

ڈائریکٹر گینور ڈاکٹر آصف جیلانی نے  ادارے کی ایک سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کینسر ہسپتال مناور میں جنوری 2022 سے جنوری 2023 یعنی ایک سال کے عرصے میں مجموعی طورپر 1704 کینسر میں مبتلا مریض لائے گئے، جن میں سے 578 نئے جبکہ باقی ماندہ فالو اپ کی غرض سے داخل ہوئے۔  بدقسمتی سے ان مریضوں میں سے 44 فیصد یعنی سب سے زیادہ مریض کینسر کے آخری اسٹیج پر تھے۔چالیس فیصد مریض اسٹیج تھری اور صرف سولہ فیصد پہلے اور دوسرے اسٹیج کے مریض تھے۔ ان مریضوں میں سے 467 کو کیموتھراپی جبکہ377 کو تابکاری انکولوجی یعنی ریڈیو تھراپی کی سہولت فراہم کی گئی۔

 یہ اعداد وشمار تو صرف گلگت میں قائم اپنی نوعیت کے پہلے اور نوزائدہ طبی مرکز کے ہیں، اس کے علاوہ گلگت بلتستان سے اس مہلک مرض میں مبتلا سینکڑوں مریض پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جوکہ  علاقے کی آبادی کے تناسب سےکسی بھی بیماری میں مبتلا مریضوں کی شرح میں سب سے زیادہ ہے۔

کینسر صرف گلگت بلتستان کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مرض ہے جس کے ہاتھوں دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر دستیاب اعداد و شمار کےمطابق 2020 میں دنیا میں ایک کروڑ 92 لاکھ سے زائد افراد کینسر کے مرض کا شکار ہوئے ، جن میں ایک کروڑ  65ہزار مرد اور 92 لاکھ عورتیں شامل تھیں۔اسی طرح پاکستان  میں 2020میں ایک لاکھ 80 ہزار افراد کینسر کے مرض کا شکار ہوئے جن میں سے 1 لاکھ 17 ہزار جان کی بازی ہار گئے۔ عالمی ادارہ صحت کےمطابق کینسر سب سے تیزی سےپھیلنے والا مرض بن چکا ہے اور غریب اور ترقی پذیر ممالک میں 70 فی صد اموات کینسر کے باعث ہوتی ہیں ، یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2030ء میں کینسر کے مریضوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔

گلگت بلتستان میں کینسر کے پھیلاؤ کی وجہ کثیر الجہتی ہے۔ جیساکہ مرض کے بارے میں آگاہی کی کمی، طبی سہولیات تک محدود رسائی، مناسب اسکریننگ اور تشخیصی طریقوں کا فقدان وغیرہ۔ مزید برآں، خالص اورمتوازن غذا کی کمی،ماحولیاتی زہریلے مادوں کی نمائش، طرز زندگی کے عوامل اور جینیات بھی کینسر کی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں۔

کینسر کے خلاف جنگ کا ایک اہم پہلو  مرض کی جلد تشخیص ہے۔ اسکریننگ اور تشخیصی ٹیسٹ، جیسے میموگرام، پیپ ٹیسٹ، اور بایپسی، کینسر کے ابتدائی مراحل میں پتہ لگانے میں مدد کر سکتے ہیں۔مگرکینسر کے معیاری علاج اور دیکھ بھال تک رسائی کا فقدان گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے، جس کی وجہ سے اموات کی شرح بلند ہے اور کینسر میں مبتلا افراد کے معیار زندگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

 اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گلگت بلتستان میں اپنی پارٹی کے اس وقت کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی درخواست پر وفاقی حکومت کی جانب سے اڑھائی ارب کی لاگت سے گلگت میں جدید کینسر ہسپتال کے قیام کی منظوری دیدی، جوکہ یہاں کے محکوم عوام بالخصوص کمزور طبقوں کے لیے کسی  نعمت  سے کم نہ تھا۔  کیونکہ مقامی سطح پر معیاری کینسر کی دیکھ بھال تک رسائی کا فقدان گلگت  بلتستان کے لوگوں کے لیے ایک بڑی پریشانی کا باعث رہا ہے، جنہیں اس مرض کی تشخیص اور علاج و معالجے  تک رسائی کے لیے طویل فاصلہ طے کرکے دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا  ، جس پر اٹھنے والے اخراجات متاثرہ خاندانوں کی  مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے تھے۔ اب مقامی سطح پر کینسر ہسپتال کے قیام سے ان مسائل میں کافی حد تک کمی آئیگی۔

  گلگت  کینسر ہسپتال کو جنوری 2022 سے باضابطہ طورپر فنکشنل کیا گیا  جوکہ  جدید طبی ٹیکنالوجی، جدید ترین آلات اور اعلیٰ تربیت یافتہ طبی عملہ سے لیس ہے۔ ہسپتال میں مریضوں کے لئے تشخیصی خدمات، تابکاری تھراپی، کیموتھراپی اور سرجری، سب ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہیں۔ ہسپتال کینسر کی معیاری دیکھ بھال تک رسائی فراہم کرنے کے علاوہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا  ایک ذریعہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں، گینور انتظامیہ کی جانب سے صحت عامہ کے اداروں اورعوام الناس  میں کینسر اور اس کے اثرات ، علامات، تشخیص اور علاج کے بارے میں آگاہی پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں، جس سے لوگوں میں مرض کی بروقت تشخیص اور علاج و معالجے کی سہولت اور اس مہلک بیماری سے بچاو کے لئے احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔

گلگت میں کینسر ہسپتال کا قیام پورے خطے کے لیے ایک مثبت پیشرفت ہےاور کینسر میں مبتلا افراد کے لیے امید کی کرن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان حکومت خطے میں کینسر کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے ہسپتال کے اندر ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ ریسرچ سنٹر کے قیام کے لئے اقدامات کرے تاکہ خطے میں کینسر کا باعث بننے والے عوامل، بروقت تشخیص اور علاج و معالجے کے جدید طریقوں کے ذریعے اس مرض سے موثر انداز میں نمٹا جاسکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button