فدا حسین ،شوکت خانم ہسپتال اور جی بی حکومت کا اقدام
رشید ارشد
کہتے ہیں جھوٹ کے شور میں اکثر سچ چھپتا ہے ۔لیکن سچ میں جو طاقت ہے وہ جھوٹ میں کہاں ،ایک جھوٹ میں پچپن سے سنتا آیا ہوں کہ عمران خان نے اپنی ماں کی یاد میں ایک ہسپتال شوکت خانم کے نام سے بنایا ہے جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت میں علاج ہوتا ہے ۔میں نے اپنی زندگی میں کسی مریض کو اس ہسپتال میں مفت علاج ہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ ایسی مائیں ضرور دیکھی ہیں جو اسی ہسپتال میں چیخ و پکار کر رہی تھیں کہ ان کے جوان بیٹے کے علاج کے لئے لاکھوں روپے طلب کئے جا رہے ہیں جبکہ ہماری غربت ہمیں اجازت نہیں دیتی ہے ۔ایک ماں تو اسی ہسپتال میں اپنے بال نوچ رہی تھی کہ مفت علاج کے نام پر ہم سے لاکھوں روپے طلب کئے جا رہے ہیں ہے ہسپتال تو غریبوں کے نام پر چندہ کر کے بنایا گیا تھا ۔ہم کہاں سے اتنے پیسے لائیں اور کیسے اپنے بیٹے کا علاج کرائیں ،اس ماں کی چیخ و پکار جو اپنے لخت جگر کی زندگی کیلئے چیخ رہی تھی کہ وڈیو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ،
اس ہسپتال کے لئے زمین نوازشریف نے دی اور پچاس کروڑ کی ابتدائی امداد بھی دی اس لئے کہ اس ہسپتال میں مریضوں کا مفت علاج ہوگا ،ملک کے بچے بچے نے عمران خان کے اس جذبے کو سلام کرتے ہوئے اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی ہسپتال کے شور شرابے میں عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا اپنی سیاست کا جواز پیش کیا کہ پاکستان میں ہم نے واحد ایسا ہسپتال بنایا ہے جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے ۔اور ہم پورے ملک کا نظام بھی ایسے ہی منظم انداز میں چلائیں گے عمران خان صاحب اپنی ہر تقریر میں بائیس برسوں سے شوکت خانم ہسپتال کا حوالے دیتے تھکتے نہیں تھے ،یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خان صاحب کی سیاست کی ابتدا بھی شوکت خانم ہسپتال ہے اور انتہا بھی شوکت خانم ہسپتال ہے ۔
ہم خان صاحب کی نیت اور ان کے جذبے پر شک نہیں کر رہے ہیں لیکن ہم سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ غریبوں کے نام پر چندے سے بننے والے اس ادارے میں غریبوں کا علاج مفت کیوں نہیں ہو رہا ہے ۔کینسر کے مریض کو صرف ایڈمٹ کرنے کے لئے لاکھوں روپے طلب کئے جا رہے ہیں اس کی تازہ مثال ہے گلگت بلتستان کے علاقے نگر سے تعلق رکھنے والے طالب علم فدا حسین کی جو لاہور یونیورسٹی اف منیجمنٹ سائنسزز کے قابل ترین طالب علم ہیں ،فدا حسین غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں بد قسمتی سے بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں پچھلے کئی دنوں سے گلگت بلتستان کا ہر درد دل یہ فریاد کر رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے اس قیمتی اثاثے کا غریبوں کے نام پر چندے سے بننے والے شوکت خانم ہسپتال میں مفت علاج کیا جائے ،علاج تو درکنار بہت ہی بڑی بڑی سفارشیں کرنے کے بعد پانچ لاکھ روپے ایڈوانس لے کر ایڈمت کیا گیا ہے اور علاج کیلئے تیس سے پنتیس لاکھ طلب کئے جا رہے ہیں اس طالب علم کی فریاد جب گلگت بلتستان کے لوگوں نے سنی تو چندہ مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے یہ چندہ چندے سے بننے والے ہسپتال کے حوالہ کیا جائے گا تا کہ اس قیمتی اثاثے کا علاج ممکن ہو سکے ،اس صورتحال کا علم جب وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو ہوا تو انہوں نے اس طالب علم کے علاج کے لئے ہر ممکن تعاون کا عزم کیا ہے اور عنقریب ان کے والدین سے رابطہ کر کے گلگت بلتستان حکومت فدا حسین کے علاج کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گی۔
مرکز میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور پنجاب میں شہبازشریف وزیر اعلی تھے تو گلگت بلتستان کو ہیلتھ سیکٹر کے لئے 54کروڈ روپے فراہم کئے گئے جس میں سے 32کروڈ پنجاب حکومت نے اور 22کروڈ مرکز نے فراہم کے گئے اسی رقم سے گلگت بلتستان کے درجنوں مریض جو کینسر ،ہارٹ اور جگر کی بیماری میں مبتلا تھے ان کا علاج کیا گیا کسی مریض کو ستر لاکھ کسی مریض کو اسی لاکھ کے حساب سے ہسپتالوں کو رقم اسی امداد سے فراہم کی گئی اب چونکہ مرکز میں تبدیلی آئی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لئے مرکز سے یا پنجاب سے اس طرح کی کوئی رقم ملنے کی امید نہیں اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان انڈومنٹ فنڈ قائم کیا جائے گا جو آخری مراحل میں ہے اور اسی فنڈ سے جان لیوا بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا علاج ہوگا۔
ستم یہ کہ اب تو حکومت بھی اسی خان صاحب کی ہے جنہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے کریڈٹ میں ہی سیاست میں قدم رکھ کر وزرات عظمی کا منصب بھی حاصل کیا ہے اور اسی حکومت میں شوکت خانم ہسپتال میں گلگت بلتستان کا ایک فرزند زندگی کی امید کی شمیں روشن کر کے انتظار کر رہا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال میں اس کا علاج ہو اور اسے زندگی لوٹا دی جائے لیکن آخری خبریں آنے تک اس کے غریب والدین سے بھاری رقم طلب کی جا رہی ہے ،اس صورتحال میں گلگت بلتستان کے ،،تبدیلی،رہنما بھی کچھ سوچیں جو تبدیلی کے بھنگڑے ڈالتے نہیں تھکتے۔
وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے فدا حسین کے علاج کے لئے نہ صرف اقدام اٹھانے کا عزم کیا ہے بلکہ لاہور میں مقیم مسلم لیگ ن کے طالب علم رہنما اور مشہور سماجی رہنما ہدایت ہادی سے ٹیلی فون میں بات چیت کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں ہیں کہ فدا حسین کے علاج کے حوالے سے اور ابتدائی مشکلات دور کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کریں ۔
یہ ہے اصل تبدیلی جو گلگت بلتستان میں آئی ہے حقیقی معنوں میں مستحق مریضوں کے علاج کے لئے گلگت بلتستان حکومت نے کروڈوں کی رقم خرچ کی ہے اور اب فدا حسین کے علاج کے لئے بھی گلگت بلتستان حکومت اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اقدامات کرے گی۔اس صورتحال میں گلگت بلتستان کے ،تبدیلی ،،رہنما ضرور اپنے قائد سے پوچھیں کہ کیا یہ ہے وہ تبدیلی جس کا ڈھنڈورہ بائیس برس تک پیٹا گیا ؟اور اس تبدیلی میں گلگت بلتستان کے فرزند فدا حسین کا علاج بھی مفت نہیں ہو سکتا ہے؟