کالمز

جی بی کے حکمران اور بدصوات کے متاثرین

تحریر:۔دردانہ شیر

گلگت بلتستان کے دورافتادہ ضلع غذر کے سب سے پسماندہ تحصیل اشکومن کے بالائی علاقے بدصوات میں 17جولائی کو سیلاب نے جو تباہی مچا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے بدصوات کے گاؤں کو اپنی لپٹ میں لے لیا اور کئی خاندان اپنی تمام جمع پونجی اور مکانات و زمینوں سے محروم ہوگئے آج قدرتی آفات کو آئیے دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے سیلاب کے بعد ہی سرکاری گاڑیوں کی اس علاقے کی طرف لائن لگی مگر جتنا خرچہ فیول کی مد میں آیا اس رقم کے برابر تو ان متاثرین سیلاب کو امدادبھی نہیں ملی غذر کی انتظامیہ کے بڑے ہر دوسرے روز بدصوات کارخ کرتے اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید کوئی بڑی ریلیف لیکر آئیے ہونگے مگر حقیقت تو یہ تھی متاثرین کو اب تک جو امدادی سامان فراہم کی گئی ہے وہ اے کے ڈی این اور دیگر فلاحی اداروں کی طرف سے مہیا کی گئی ہے غذر کی انتظامیہ نے متاثرین کو چند ٹینٹ تقسیم کئے اور کچھ دنوں کا راشن دینے کے بعد یہاں کی ایڈمنسٹریشن نے ہاتھ کھڑے کر دئیے اب تک متاثرین کو آغاخان ڈولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کی طرف سے امدادی سامان فراہم کی جارہی ہے اور اب تک ان متاثرین کو اس فلاحی ادارے کی طرف سے تین ماہ کی راشن تقسیم کر دی گئی ہے اور راشن کی تقسیم کے دوران سرکاری حکام صرف مہمان خصوصی کی حثیت سے وہاں جاتے اور دو سے چار متاثرین میں راشن تقسیم کرکے فوٹو سیشن کرنے کے بعد واپس ہوتے اب تو ان متاثرین کی حالت یہ ہے کہ موسمی حالات کو دیکھ ان کا ٹینٹوں میں قیام مشکل ہوگیا ہے اس علاقے میں سردی شروع ہوگئی ہے اور پہاڑوں پر موسم سرما کی پہلی برف باری کے ساتھ ہی یہاں کے مکینوں نے سردی کی تیاری کے لئے ہنزم سوختنی کا سٹاک کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف اپنے معصوم بچوں کے ساتھ وہ متاثرین ہیں جن کو ایک ایک ٹینٹ تو ملا ہے مگر لہو کو جمانے والی سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور یہ متاثرین یہ سوچتے تھے کہ حکومت کی طرف سے اگر ان کے مکانات جو سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں کابروقت امدادی رقم مل جاتی تو وہ اپنے لیے ایک کمرہ ہی تعمیر کرسکتے مگر ایسا نہیں ہوا ڈھائی ماہ گزر گئے ہیں مگر تاحال گلگت بلتستان کی حکومت کی طرف سے ان متاثرین کو معاوضہ کی شکل میں ایک پیسہ بھی نہیں ملا دو ہفتے قبل کمشنر گلگت ڈویژن نے بھی غذر کے اس دور افتادہ علاقے بدصوات کا دورہ کیا کمشنر کے آنے سے قبل متاثرین کو یہ بتایا گیا تھا کہ کمشنر امدادی چیک لیکر آرہے ہیں جس پر تمام متاثرین جمع ہوگئے مگر ایسا کچھ نہیں تھا متاثرین کو کمشنر گلگت ڈویژن نے اے کے ڈی این کے راشن کے چند تھیلے تقسیم کئے اور کہا کہ بہت جلد چیف سیکریٹری یا وزیر اعلی کو لیکر یہاں آونگا اور ان کے ہاتھوں سے اپ کو امدادی چیک تقسیم ہونگے جس پر متاثرین نے کمشنر کے حق میں کئی منٹ تک تالیاں بجائی اوراس انتظار میں بیٹھے رہے کہ اب وزیرا علی یا چیف سیکریٹری آئینگے تو ان کو امدادی چیک تقسیم ہونگے اور پھر ان متاثرین کو یہ خوشخبری بھی سنا دی گئی کہ بروز ہفتہ 29ستمبر کو چیف سیکریٹری بدصوات تشریف لا رہے ہیں اور متاثرین کو ایک جگہ میں اکھٹے ہونے کی اطلاع بھی دیدی گئی تمام متاثرین متعلقہ جگہ پہنچ گئے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی کہ آج ان کو امدادی چیک مل جاینگے تاکہ اس رقم سے وہ اپنے لئے کو ئی ایک کمرہ تعمیر کرسکے میں یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کہ اس سیلاب سے تین ایسے خاندان بھی متاثرین میں شامل ہیں جن کی تمام زمین اور رہائشی مکانات وہاں بننے والی جھیل میں دب گئی ہے اور ان کے پاس ایک انچ زمین بھی نہیں بچی مگر اس گاؤں کے دیگر متاثرین کی ہمت دیکھے انھوں نے جن افراد کی تمام زمین جھیل میں چلی گئی ہے ان کو مکان تعمیر کرنے کے لئے مفت زمین دینے کا اعلان کیا یہ ہے وہ غریب متاثرین جن کی ہمت اور حوصلہ دیکھ کر ان کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے بہرحال چیف سکریٹری گاڑیوں کی ایک بڑی جلوس میں بدصوات پہنچ گئے اور متاثرین سے ملاقات کی اس سے قبل چیف سیکریٹری کو متاثرین نے اپنے مطالبات پیش کئے یہ وہ مطالبات تھے جن پر اس سے قبل ملک کے دیگر علاقوں میں اس طرح کے قدرتی افات پر حکومت نے پورے کئے تھے مگر بدصوات کے متاثرین کا اخر کیا قصور ہیں کہ ان کے تمام مطالبات میں سے ایک مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا ان کے مطالبات میں متاثرہ علاقہ کو افات زادہ قرار دینا ،جن متاثرین نے بنکوں سے زرعی قرضے نکالے ہیں ان کی معافی،فوری طور پرمتاثرین کے لئے معاوضہ کی ادائیگی اور متاثرین کے بچوں کو سکالرشپ کا دیمانڈ تھا چیف سیکریٹری نے سپاسنامہ غور سے سنا اور پھر اپنی تقریر شروع کر دی اور ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقے کو افت زادہ قرار نہیں دے سکتے بنکوں کی قرضوں کی معافی بھی نہیں ہوگی جن سیلاب متاثرین کے گھر سیلابی ریلے میں چلے گئے ہیں ان کو ایک ماہ تک معاوضہ ادا کیا جائے گا بد صوات روڈ کو ای ٹی آئی کے ذرئیے مکمل کرالینگے قرمبر پارک کو حقیقی معنوں میں پارک کا درجہ دیکر جنگلی حیات کی تحفظ کو یقینی بنالینگے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ سیلاب کی صورت حال کے حوالے سے پل پل کی خبریں لیتا رہا ہوں جو جھیل بنا ہے اس کے آس پاس ٹورسٹ ہٹس تعمیر ہونگے تاکہ مقامی لوگوں کی حالت بہتر ہو چیف سیکریٹری کی تقریر ختم ہوگئی اور گاڑیوں کی لائن وہاں سے واپس ہوگئی متاثرین سیلاب گاڑیوں کا دھواں کھاتے رہے اور بڑی بڑی گاڑیاں چند ہی منٹوں میں ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی متاثرین جو بڑی آس لگائے بیٹھے تھے کہ آج ان کو معاوضہ ملنے والا ہے اور علاقے کو افت زادہ قرار دینے کے علاوہ ان کی بنکوں کے قرضے معاف ہونے والے ہیں چند ہی منٹوں میں ان تما م امیدوں پر پانی پھیر گیا اور ایک بار پھر اپنے ٹینٹوں کی راہ لی بدصوات غذر کا دورافتادہ علاقوں میں سے ایک ہے یہاں کے لوگ آج سے کوئی سو سال قبل افغانستان کے علاقے بدخشاں سے اکر ان علاقوں میں آباد ہوگئے ہیں یہ لوگ نہایت ہی محنتی ہیں اور مال مویشی پالتے ہیں اور یہاں کی زمین الو کی فصیل کے لئے بے حد مفید ہیں اور ٹنوں کے حساب سے یہاں الو کی پیداور ہوتی تھی مگر بدصوات میں سیلابی ریلے سے بننے والی جھیل میں الو کی فصیل بھی ڈوب گئی اور دو ماہ سے زائد کا عرصے سے اس علاقے کے چھ دیہاتوں کا زمینی رابط کٹا ہوا ہے اور لاکھوں روپے کے الو ضائع ہوگئے ہیں آج یہاں کے غریب عوام کسمپر سی کی زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ 2010میں جب گلگت بلتستان میں سیلاب آیا تو کئی علاقوں کے متاثرین سیلاب کے زرعی قرضے معاف کر دئیے گئے تعجب کی بات یہ ہے کہ بدصوات گاؤں ڈوب گیا ہے بعض خاندانوں کے پاس ایک انچ زمین بھی نہیں بچی ہے اوران متاثرین کو نہ معاضہ ملتا ہے اور نہ ہی اس علاقے کو افت زادہ قرار دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے زرعی قرضوں کو معاف کیا جاتا ہے ایسا کیوں ہے؟؟ کیا اس لئے کہ ان لوگوں نے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دیا تھا یا کیا اس لئے کہ یہ لوگ بہت زیادہ غریب ہیں اور ان کی آواز حکمرانوں تک نہیں پہنچ سکتی وجہ صاف ہے کہ دوماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اگر چیف سیکریٹری ان متاثرین کے پاس پہنچ جائے تو وہاں پر وزیر اعلی اور ان کے وزراء کے پہنچنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں اگر اب تک دیکھا جائے تو جو گاڑیاں اس علاقے میں آئی ہیں ان کے فیول کا رقم ہی ان متاثرین کو دیا جاتا تو ان کا معاوضہ کی رقم پوری ہوتی اخر میں پاکستان تحریک انصاف کے اہم سیاسی لیڈرراجہ جلال حسین مقپون کو مبارک باد دیتا ہوں جنہوں نے گلگت بلتستان کے گورنرکی حثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے چونکہ موصوف کے سیاسی میدان میں اہم خدمات ہیں اور ان کو غریبوں کے مسائل کا پتہ ہے نومنتخب گورنر سے اپیل ہے کہ وہ خود بدصوات کے سیلاب متاثرین کی حالت زار دیکھنے اس علاقے میں ضرور آئیں اور اپنی انکھوں سے ان متاثرین کی حالت زار کا جائزہ لے کیا لہوجمانے والی سردی میں یہ متاثرین اپنی زندگی کے آیام ان ٹینٹوں میں گزار سکیں گے یہاں کے متاثرین کی صرف اپ سے امید یں وابسط ہیں چونکہ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کے حکمرانوں نے تو ان متاثرین کی حالت زار کا اچھا خاصاتماشا دیکھا شایدپی ٹی آئی کے حکمرانوں کی اس آفات زادہ علاقے کے متاثرین پر کچھ رحم آجائے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button