کالمز

زندگی کی تلاش

ممتازعباس شگری

عمارکی کہانی میں دردبھی ہے،حقیقت بھی ہے اوریہ ہمارے معاشرے کاتوجہ طلب پہلوبھی ہے،وہ سکردوشہرسے سترکلومیڑدورایک دورآفتادہ علاقہ تسرکارہائشی ہے،کے ٹوکے دامن میں رہنے والے عمارکے والدایک مزدورہے،سردیوں کے ایام میں وہ شہروں میں محنت مزدوری کرتے ہیں جبکہ موسم گرمامیں کے ٹواورگردنوراح میں آنے والے سیاحوں کی بوجھ اٹھاکربال بچوں کی پرورش کرتاہے،آپ پورااحوال ملاحظہ فرمائیں،والدین کی شادی کے کچھ عرصے بعدہی عمار نے ان کے گھرمیں قدم رکھا،والدین نے بچے کانام عماررکھا،عمارجب دوسال کی عمرمیں داخل ہواتب ایک اورکلی نے جنم لیا،اس طرح اب وہ آپس میں چھ بہن بھائی ہے،عمارجب پانچ سال کاہواتووالدنے اپنے لخت جگرکوتعلیم کے نورسے ہمکنارکرانے کیلئے قریبی اسکول میں بھیج دیا،ابھی وہ چھ سال کاہواتھا اورپہلی کلاس میں ہی پڑھ رہاتھا،اس کے چہرے پرسرخ دانے نمایاں ہوناشروع ہوا،والدنے جلدی سے قریبی ڈسپنری میں دیکھایا،ڈاکٹرصاحب نے دواتجویزکی،دوالینے لگا لیکن دانے ختم ہونے کے بجائے پھیلنے لگا،دوسری بارجب ڈاکٹرکے پاس گیا توانہوں نے اُسے ڈی ایچ کیواہسپتال اسکردومیں ریفرکیاگیا،جب سکردومیں ڈاکٹرکودیکھایاتوانہوں نے دواتجویزکرنے کے بعدفوری طورپراسلام آبادمیں کسی اہسپتال میں علاج کرنے کی ہدایت کی،یہ سن کرمحنت مزدوری سے گھربارچلانے والے باپ نے مایوسی کے عالم میں اپنے بیٹے کی طرف دیکھااورکہنے لگاکوئی بات نہیں بیٹاہم گھرمیں موجودمال مویشیوں کوہی بھیج کرآپ کاعلاج کراوں گا،کچھ دنوں بعددونوں باپ بیٹارخت سفرباندھ کراسلام آبادکی طرف نکل پڑا،مسلسل چوبیس گھنٹے کی سفرکے بعددونوں باپ بیٹاراولپنڈی پہنچ گیا،غریب باپ نے اپنے لال کاعلاج پمزاہسپتال اسلام آبادمیں کرانے کامصمم ارادہ کرلیا،تشخیص کے بعدڈاکٹرنے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا،ڈکٹرنے عمارکے والدسے مخاطب ہوتے ہوئے کہابیٹے کے چہرے پرنمایاں دانے دراصل کینسرکے دانے ہے،ڈاکٹرکی منہ سے یہ جملہ سننے کی دیرتھی، عمارکے والدکے آنکھوں سے آنسوبہنے لگے،ڈاکٹرنے انہیں ہدایت دیتے ہوئے کہااس کیلئے بیٹے کوعمربھردوائی استعمال کرنی پڑے گی،ہرماہ کی دوائی چھ ہزارروپے کی ہوگی،اورہرسال اسلام آبادمیں چیک اپ کیلئے آناپڑے گا،ڈاکٹرکی ہدایت کے مطابق دوائی لے کرگاوں کی طرف رخ کرلیا،ادھرعمارکی ماں اپنے لخت جگرکی استقبال کیلئے بے تاب تھی،وہ شایدسوچ رہی تھی کہہ میراجگرکاٹکراصحت مندہوکرلوٹے گا،گاوں پہنچ کراس کی ماں نے اپنی لخت جگرکااستقبال ضرورکیالیکن اپنے بیٹے کوکینسرکی بیماری میں مبتلاہونے کی خبرسن کروہ اپنی آنسونہ روک پائی،عمارکے مطابق وہ ہرسال چیک اب کیلئے جارہے ہیں اوردوائی بھی لے رہاہے،ان کے والدنے گھرمیں موجودبھیڑبکریاں سمیت تمام قیمتی اشیاء بھیج چکی ہے،عمارنے اپنی زندگی کی کہانی آنکھوں سے آنسوجارہی کرتے ہوئے بیان کیا،میں زندگی جیناچاہتاہوں ،میں اندگی کی بازی ہارنانہیں چاہتا،لیکن کروں توکیاکروں،میرے والدصاحب کوآخرگھرمیں موجودماں اوردوسرے بہن بھائیوں کوبھی پالناہے،وہ ہرروزمیں چہرے پرنگاہ کرکے زاروقطاررونے لگتاہے،میں انہیں حوصلہ دیتاہوں ابوآپ پریشان نہ ہوں میں انشااللہ جلدٹھیک ہوجاوں گا،اورہمارے خاندان میں خوشخالی آئے گی،لیکن خداجانے کب ٹھیک ہوگا،ابھی ہمارے پاس کچھ نہیں باقی نہیں بچاہے سوائے گھرکے،پچھلے ایک دوسال اسکردومیں مقیم مخیرحضرات نے چندہ جمع کرکے میرے علاج کیلئے پیسے کابندوبست کیا،لیکن میں آخرکب تک مانگوں گا،اب تولوگوں سے مانگتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے،میرے والدکی تمام ترتوجہ میرے علاج کی طرف ہے،میں انہیں کہتاہوں آپ میری خاطردوسرے بھائیوں کی زندگی بربادمت کریں ،انہیں کم ازکم سکردومیں کسی کے ہاں ٹھہرایں وہ وہاں کام بھی کرے گااوراپنی پڑھائی بھی جاری رکھیں گے،اوروہ اپنی زندگی میں کامیاب ہوسکیں گے۔

یہ ہمارے معاشرے میں موجودایک عمارکی کہانی ہے،جوعلاج کی خاطرہزاروں ٹھوکریں کھانے پرمجبورہے،نہ جانے کتنے عمارزندگی اورموت کے کشمکش میں ہونگے،نہ جانے کتنے اورعماراس طرح کے موزی بیماریوں میں مبتلاہونگے،نہ جانے کتنے عمارعلاج کیلئے صاحب استطاعت طبقے کی طرف آنکھ اُٹھاکردیکھ رہے ہونگے اورنہ جانے کتنے عمارامیراورمخیرافرادکی راہ تکتے ہوئے اس دارجہاں سے کوچ کرگئے ہوں گے،لیکن ہم نے ابھی تک ان بیماریوں سے لڑنے کاکوئی طریقہ ایجادکیاہے،نہ ہم اس صاحب محتاج طبقے کی ضرورتوں کوپوراکرنے کیلئے تیارہے۔

ہمارے معاشرے کاالمیہ ہے ہمیں دوسروں کی دکھ دردکاکبھی بھی احسا س نہیں ہوتا،یاہمیں احساس دلانے کیلئے اس دکھ دردمیں گھیرے شخص کومرناپڑتاہے،ہم زبان سے ایک دوسرے کوبھائی بھائی کہتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم ایک دوسرے کے جان کے درپے ہیں ،اب ہم زمانے میں صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں،ہمیں ایک دوسرے کے دکھ دردکابھی احساس نہیں ہوتا،اسلام ہمیں ایک دوسرے کی دکھ دردبانٹنے کی تلقین کرتاہے،مگرہم اسلامی تعلیمات سے پرے ہٹ رہے ہیں،دوسروں کے دکھ دوربانٹنے والوں کوانسان کہتے ہیں ورنہ اپنی ضرورتوں کاخیال جانوربھی رکھتے ہیں،حکومت وقت کوچاہیں معاشرے میں موجودضرورت مندبیمارطبقے کی ہرممکن مددکیلئے اقدامات کریں،ایسا سسٹم وضع کریں جس میں غریب ولاچاربیمارحضرات کی بیماریوں کامفت علاج ہوسکیں، ان طبقات کیلئے خصوصی فنڈزکی فراہمی یقینی بنائیں، معاشرے میں موجودصاحب استطاعت طبقے کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ غریب ونادار بیمارطبقے کی ہرممکن مددکواپناشیوہ بنائیں،تاکہ ہمارامعاشرہ ایک صحتمنداورخوشخال معاشرہ بن کردوسروں کیلئے ایک رول ماڈل بن سکیں۔

(مذکوہ مریض کااصلی نام صیغہ رازمیں رکھاگیاہے،تفصیلات کیلئے آپ ان نمبرزپررابطہ کرسکتے ہیں،03121516652/03105519566)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button