کالمز

چھشی کا درندہ صفت باپ

کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار

ضلع غذر کے گاوں چھشی میں ایک سنگ دل باپ نے تیز دھار چھری سے اپنی معصوم بچی کا گلہ کاٹ کر ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ باپ گرفتار ہوا ہے۔ اس ملزم باپ کو پولیس کی روایتی تفتیش کے عمل سے گزارا جائیگا اور سزا دی جائے گی۔ یقیننا ایسے شخص کو ضرور سزا ملنی چاہئے مگر اس سارے عمل کے دوران اس بات کی کیا گرانٹی ہے کہ ہمارے معاشرے میں آئندہ ایسے دلسوز واقعات رونما نہیں ہونگے؟

ہمارا معاشرہ ایک جعلی ترقی کے عمل سے گزر رہا ہے جس میں مسائل نئے ہیں مگر ان کا حل روایتی اور فرسودہ طریقوں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی واقع اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو پولیس تفتیش کے علاوہ ماہرین کی ایک ٹیم بیٹھائی جاتی اور وہ اس بات کی تحقیق کے زریعہ کھوج لگانے کی کوشش کرتی کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ باپ درندگی پر اتر آیا؟ ماں باپ فطری طور پر بچوں کے محافظ ہوتے ہیں۔ یہ جبلت جانوروں ، پرندوں اور تمام حشرات الارض میں یکساں ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پالتے پوستے اور ان کا تحفظ اور نگہداشت کرتے ہیں۔ مزکورہ واقع ایک غیر معمولی واقع ہے ۔ جس میں باپ کا خاندانی پس منظر، گھریلو ماحول، رہن سہن، ابتدائی زندگی، موجودہ حالات زندگی، رشتوں کی کیفیت، معاشی حیثیت، روز مرہ کی سرگرمیاں سمیت کئ پہلوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ باپ کو سخت سزا دی جائے لیکن ان محرکات کا پتہ لگایا جائے جن کی وجہ سے یہ ملزم اپنی انسانیت کھو کر درندہ بن گیا۔ یقیننا یہ ملزم ذہنی مریض ہوگا مگر انسان کو ذہنی مریض بنانے کے پیچھے کئ محرکات ہوتے ہیں۔

مذکورہ طرز کے تمام ترجرائم اور خودکشی کے ایک ایک واقع کا بھی مذکوری طرز پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ایک سطحی معاشرہ ہے جہاں سائنسی انداز فکر کی بجائے لوگ مفرضوں سے مسائل کا حل نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ زمانہ بدل چکا ہے ، زمانے کے مسائل اور جرائم کی نوعیت بھی بدل چکی ہے۔ ایسے میں ان مسائل کے حل کے لئے کی جانے والی کوششوں کے طریقہ کار کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سرکار اور سرکار کے محکموں کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عوام پر حکومت کرنے کی بجائے جدید مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت اور عوام کی خدمت کرنے کی خصلت اپنا سکیں۔ سرکار کے درجنوں محکمے ہیں جو مختلف شعبوں میں عوام کی خدمت کے نام پر قائم کئے گئے ہیں مگر ان محمکوں میں بیٹھے لوگ سوائے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں بٹورنے کے کوئی مسلہ حل کرنے کے لئے آگے نہیں آتے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

عوام بھی ناسمجھ اور لاعلم ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ سرکار کا سارا نظام عوام کے پیسوں سے چلتا ہے۔ اس لئے سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مسلے کے حل میں پہل کرے۔ ایسے میں سول سوسائٹی اور عوام ان کے شانہ بشانہ ہونگے. عجیب تماشا یہ بھی ہے جب معاشرے میں مسائل ابھرتے ہیں تو عوام سرکار سے پوچھنے کی بجائے ایک دوسرے سے الجھ بیٹھتے ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button