غذر سے چین تک – پانچویں قسط
تحریر: دردانہ شیر
کاشغر شہر کا سب سے بڑا بازار ین بازار ہے جس میں اشیاء ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے اس بازار میں داخل ہونے کے لئے پانچ گیٹ لگے ہیں جہاں پر سیکورٹی اہلکار ہر شخص کوسخت چیکنگ کے بعد بازار میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں اور اس بازار میں اگر چینی شہری بھی داخل ہو تو اس کے پاس اپنے ملک کا شناختی کارڈ ہونا لازمی ہے اس بازار میں تھوک کے حساب سے عام بازاروں کی نسبت چیزیں کافی سستی ملتی ہے اور کاشغر شہر کے قریبی دیہاتوں کے دکاندار بھی اس بازار سے تھوک کے حساب سے سامان خرید کر اپنے علاقوں میں فروخت کرتے ہیں ہم بھی اس ین بازار سے کچھ گھریلو سامان خریدنے مین گیٹ میں داخل ہوگئے اور تمام افراد کا شناختی کارڈ چیک کرکے اندر مارکیٹ میں جانے کی اجازت تھی ہم تو اپنے بارڈر پاس بھی ہوٹل چھوڑ کے آئے تھے لائن پر کھڑے ہوگئے اگر سیکورٹی والے بارڈر پاس کے بغیر مارکیٹ جانے کی اجازت نہیں دی تو واپس جائینگے چیکنگ کی ہماری باری آئی ہم نے ان کو اپنا تعارف پاکستانی شہری کی حیثیت سے کرایا تو چیک کرنے والے سپاہی نے اپنے سینئر آفسیر کو اپنی زبان میں کچھ کہا تو انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا جس کے بعد ہمیں مارکیٹ میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔
مارکیٹ کو دیکھ میرا ساتھی نیت ولی شاہ کافی پریشان ہوگیا۔ شاید انھوں نے اتنی بڑی مارکیٹ پہلی بار دیکھا تھا ین بازار میں ضرورت زندگی کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ آپ کو ایک سے زائد چیزے لینی ہوگی یہاں پر سامان تھوک کے حساب سے فروخت ہوتا ہے باہر اگر کوئی چیز دس ین کی ملتی ہے تو ین بازار میں اس کی قیمت آٹھ ین ہوگی ہم نے تین سے چار گھنٹے ین بازار میں گزار دئیے اور ضرورت کا سامان بھی خرید لیا۔
میں یہ بھی بتا دوں کہ ین بازار میں بھی کسی دکان میں ایک ریٹ نہیں اب اگر اس مارکیٹ گئے تو قیمت اوپر نیچے ہوسکتا ہے اور اگر آپ نے دو سو ین کا کوئی کوٹ خریدنا ہے تو اس کی ریٹ کم از کم بیس ین کم کرایا جاسکتا ہے کیونکہ چائینہ کے اپنے شہری بھی ریٹ کی کمی کے حوالے سے دکانداروں سے کافی دیر تک تکرار کرتے ہیں چونکہ میں اس قبل بھی تین دفعہ چائینہ گیا ہوا تھا اور دکانداروں کی عادت سے بھی اچھا خاصا واقف ہوا تھا ہم نے بھی جو سامان خرید لی دو ہزار پانچ سو ین کے سامان میں دو سو دس ین کم کرانے میں کامیاب ہوگئے چائینہ میں جو سامان ملتا ہے اس سامان اور پاکستان لانے والے سامان میں بہت ہی فرق ہوتا ہے اس حوالے سے جب ہم نے کچھ کاروبازی حضرات سے پتہ کیا تو ہمیں یہ بتایا گیا کہ زیادہ تر کاروباری افرا د جو تھوک کا کاروبار کرتے ہیں فیکٹری میں جاکر اپنے مرضی کا سامان کا ارڈر دیتے ہیں اگر ایک کمبل اٹھ کلو کا ہے اس کا وزن چھ کلو کا کرنے کا ڈیمانڈ دیا جاتا ہے اور فیکٹری والے ڈیمانڈ کے مطابق کمبل اور کوٹ بناتے ہیں مگر چائینہ میں ایسا کرنا ممکن نہیں بلکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہو اکہ چائینہ میں ہر سال کوٹ اور بنیان کی جو ڈیذئن بنائی جاتی ہے اگلے سال وہی کوٹ یا بنیان اپ کو پورے چائنہ میں نہیں ملے گی اور نئے سال کے دوران نئی ورائٹی مارکیٹ میں آجائیگی دوسری طرف یہاں کئی بھی ہم نے کو کباڑ کی دکان نہیں دیکھی پتہ نہیں بچ جانے والے یہ کوٹ اور دیگر سامان کا یہ لوگ کیا کرتے ہیں دوسری طرف ین بازار میں ڈرائی فروٹ کی بہت بڑی مارکیٹ ہے جہاں پر ہرقسم کا ڈرائی فروٹ دستیاب ہیں بتایا جاتا ہے کہ آج سے پندرہ سال قبل چائنہ میں ایک بھی اخروٹ اور بادام کا کوئی درخت نہیں تھا جبکہ اب صورت حال یہ کہ کاشغر میں بڑی تعدادمیں اخروٹ اور بادام کے درخت موجود ہیں ہم نے کاشغر شہر کے باہر اخروٹ اور بادام کے باغات دیکھ کا پریشان ہوگئے اور ان کا ایک اخروٹ ہمارے دو اخروٹ سے سائز میں بڑا ہے اور بادام کی بھی یہ حالت ہے اور ان کا ریٹ کا پوچھا جائے تو پاکستان کے اخروٹ سے چائینہ اخروٹ کی قیمت نصف کم ہے اور یہ ملک زرعی شعبے میں بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے کاشغر شہر سے اگر چند کلومیٹر باہر نکل کر دیکھا جائے تو کئی کلومیٹر دور دور تک انگور کے بہت بڑے باغات ہیں اور یہاں کے انار اور آڑو بھی ذائقے کے لحاظ سے ایک خاص مقام رکھتے ہیں ہمارے یہاں کیلے درجن کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں اور چائنہ میں کلو کے حساب سے فروخت کئے جاتے ہیں چار کیلے ایک کلو بن جاتے ہیں کاشغر کے باہر کے دیہاتوں میں لوگوں کے پاس سینکڑوں کے حساب سے مال مویشی ہیں جن میں یاک اور دمبوں کی بڑی تعداد ہمیں دیکھنے کو ملی یہاں کے کاشتکار بہت زیادہ خوشحال ہیں اور جو پھل فروٹ بازار سے خریدا جائے ان میں کوئی بھی پھل خراب ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا انگور کے درجنوں اقسام موجود ہیں اور انار کے بھی کئی اقسام ہم نے دیکھا ہم ین بازار میں کافی خریداری کرنے کے بعد اپنے ہوٹل کی طرف آرہے تھے کہ سمن ہوٹل کے مین گیٹ پر ہمیں اشکومن ایمت کے سابق چیرمین عبدالحد ملا جو گزشتہ پندرہ سالوں سے کاشغر میں مقیم ہے اس بچارے کے ساتھ جو ظلم ہوا تھا اس کی ایک بڑی دستان ہے انھوں نے عطاآباد سانحہ سے کچھ روز قبل چائینہ سے انگور کا کنٹنیر پاکستان بیجھا تھا اور جب کنٹینر سوست پہنچ گیا تو اس دوران عطا آباد کا واقعہ پیش آیا اور نصف سے زیادہ انگور ضائع ہوگیا اور جو بچ گیا تھا وہ چند کاروباری افراد اور کچھ ان کے دوستوں نے اٹھایا بعد میں اس کی پے منٹ بھی نہیں کی گئی جس پر کاشغر کے جن کاروباری افراد سے انھوں نے یہ انگور ادھار میں خریدا تھا انھوں نے نہ صرف ان کا پاسپورٹ اٹھایا بلکہ اس کو اپنے گھر میں قیدی بنایا اور اس کے بعد یہ شخص کاشغر میں محنت مزدوری کرتا رہا اور پندرہ سالوں تک اس کا پاسپورٹ نہیں ملا پچھلے سال جب عبداالحد سے میری ملاقات ہوئی تھی تو وہ کافی بیمار تھا اور ہسپتال کے ایک مہربان ڈاکٹر نے ان کو ہسپتال میں ایک کمرہ مفت میں دیدیا تھا دن کو محنت مزدوری کرتا اور شام کو اس کمرے میں آکر سو جاتا کھانا بھی ہسپتال سے ملتا تھا مگر اس دفعہ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھے بہت خوش نظر آے اور کافی صحت مند بھی میں ان سے ان کی صحت کارازپوچھا تو کہنے لگا بھائی جان اﷲپاک کا شکریہ ہے کہ میں نے اپنے تمام قرضے بھی ادا کئے اب یہاں کی حکومت نے نہ صرف مجھے موٹر سائیکل فراہم کی ہے بلکہ سحر ہوٹل میں حکومت کی طرف سے کمرہ بھی ملا ہے بہت جلد مجھے میرا پاسپورٹ بھی مل جائیگا میں اب یہاں روزانہ محنت مزدوری کرکے اچھے خاصے پیسے کمالیتا ہوں اور میں بہت جلد اپنے وطن واپس آونگا وطن کی بات کرکے ان کی انکھوں میں آنسو آگئے میں سمجھ گیا کہ پندرہ سالوں سے دیار غیر میں محنت مزدوری کرنے والے اس شخص پر کیا گزری ہوگی مگر اس دفعہ وہ پرامید تھے کہ بہت جلد میرا پاسپورٹ میرے حوالے کیا جائے گا جن لوگوں نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے ان کے خلاف بھی میں نے کیس کیا ہے انشاءﷲیہ کیس بھی جیت جاونگا عبدالحد کی باتیں جارہی تھی کہ اتنے میں کسی کاان کو فون آیا اور مزید اپنے دردناک دستان کل سنانے کا وعدہ کرکے وہاں سے چلے گئے (جاری ہے )