کالمز

شینا زبان کی درسی کتابیں

سو شل اور پرنٹ میڈ یا میں چوتھی جماعت کی شینا کتاب کی تصویریں گر دش کر رہی ہیں یہ کتا ب ’’دی جمو ں اینڈ کشمیر بورڈ آف سکول ایجو کیشن سرینگر مقبوضہ کشمیر ‘‘نے شا ئع کی ہے کیونکہ شینا گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی بولی جاتی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے گلگت بلتستان کے لوگ 69 سالوں سے سپاسناموں ،عر ضدا شتوں اور درخواستوں میں شینا زبان کو سکولوں میں رائج کرنے کا مطا لبہ کر ر ہے ہیں 2011 میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے 5 زبانوں سرائیکی ،ہندکو ،پشتو ،کوہستانی اور کھوار کو نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو شینا کا نام زیر غور نہیں آیا 2016 ء میں شینا میں نصاب سازی کی منظوری ہوئی قاعد ہ مرتب ہوا مگر کام اتنا سست جا رہا ہے کہ اگلے 70 سالوں میں بھی یہاں کی زبانیں سکولوں میں رائج نہیں ہونگی یہ سیاسی قیادت کا مسئلہ ہے حکومتوں کی الگ الگ ترجیحات کا مسئلہ ہے فنڈ کا مسئلہ ہے بجٹ کی بندر بانٹ کا مسئلہ ہے مقامی کمیونٹی کی غفلت بھی بہت بڑا فیکٹر ہے لوگ پانی کا نلکا مانگتے ہیں اپنی زبان،اپنی شناخت اور بچوں کے مستقبل کی پرواہ نہیں کرتے ہماری حکومتیں دوکاموں میں پڑوسی ممالک کی جاسوسی کا بڑا خیال رکھتی ہیں کسی غریب طالب علم کو امریکہ ،برطانیہ ،ملائشیا،بنگلہ دیش یا ترکی میں داخلہ مل جائے اُس کا کھوج لگاتے ہیں طالب علم کا راستہ روکتے ہیں اُس کے ماں باپ کو مشکوک لوگوں کی فہر ست میں ڈالتے ہیں کہ اس غریب کا ہو نہار بچہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر سکالر شپ لیکر تعلیم کیوں حاصل کرتا ہے ؟ اس طرح کوئی صحافی ،کالم نگار ،ادیب ،شاعر ،محقق ،دانشور اور اہل قلم کسی دوسرے ملک میں کانفرنس ،مشاعرہ ،سیمینار ،ورکشاپ یا علمی مجلس میں شرکت کے لئے آمادہ ہو جائے تو حکومت اُس کے پیچھے پڑجاتی ہے کہ یہ شخص ایران ،نیپا ل ،بھارت ،سری لنکا ،بنگلہ دیش یا ترکی جانے کے لئے کیوں پر تول رہا ہے ؟ اس شخص کو کانفرنس یا سیمینا ر میں کیوں بلایا گیا ؟ یہ شخص فلاں سفارت خانے سے کیوں ویزالے رہا ہے ؟یہ دو شعبے ایسے ہیں جنکی زبر دست نگرانی ہو رہی ہے؟ ایک شعبہ ایسا ہے جس کو کسی نے آج پوچھا بھی نہیں ۔ وہ شعبہ لسانی اور نسلی اقلیتوں کا ہے ۔حکو مت کے علم میں کبھی یہ بات نہیں لا ئی گئی کہ کا لاش اقلیت چترال خیبر پختونخوا میں ہے تو ان کی برا دری کے لوگ بھارت کے لداخ اور کیلاش کے پڑوسی علاقوں میں بھی اباد ہیں افغانستان میں بھی رہتے ہیں شینا بولنے والے لوگ گلگت بلتستان اور چترال میں آباد ہیں توان کی بڑی آبادی مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں بھی رہتی ہے کھوار ،گوجری اور کوہستانی زبانیں بولنے والے لوگ خیبر پختونخوا کے ہزارہ ،سوات ،دیر ،چترال اور گلگت میں آباد ہیں تو ان کی برادری پڑوسی ممالک میں بھی رہتی ہے یہ لوگ اگر ریڈیو پروگرام ،ٹیلی وژن پروگرام ،سکولوں میں نصاب اور درسی کتابوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان میں بعض مراعات ان کو پڑوسی ملک میں پہلے سے حاصل ہیں دنیا گلو بل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے سرحدوں پر نقل و حرکت کی پابندی ہے تو کیا ہوا؟ سو شل میڈیا ہے الیکٹرانک میڈیا ہے پرنٹ میڈیا ہے فیس بک پر چوتھی جماعت کی شینا کتاب ’’پمُکہ شینا کتاب ‘‘ اپ لوڈ کی گئی تو24 گھنٹوں میں5ہزارلوگوں نے اس پررائے دی اور ڈیڑھ ہزار لوگوں نے دوسروں کو بھیجا پاکستان اور گلگت بلتستان کی شینا بولنے والی 4 لاکھ آبادی میں 5 ہزار لوگوں نے اس کو پڑھایا انگریزی اصطلاح کی رو سے ’’وائرل‘‘ہوگیا اس حالت میں آپ شینا بولنے والی آبادی کو پاکستان کے اندر درسی کتابوں سے ،شینا نصاب سے اور شینا سکولوں سے کس طرح محروم رکھ سکتے ہیں ؟ خیبر پختو نخوا کی پا نچ زبانوں میں نصا ب سا زی کو 6سا ل گز ر گئے کا م آگے نہیں بڑھا نہ کتابیں شا ئع ہوئیں نہ اساتذہ کی تربیت کے مینویل بن گئے نہ کوئی اور کام ہوا 2011 ء میں خیبر پختونخوا لینگویجز پروموشن اتھارٹی کے قیام کا بل اسمبلی سے منظور ہو ا گزشتہ 6 سالوں میں اس پر ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی کام صفر سے آگے نہیں بڑھا 2011 میں صوبے کے اندر ثقافت کی نظامت قائم ہوئی اب تک کام کی فتار وہی ہے جو سول سکرٹریٹ کے اندر کلچر کا شعبہ ایک سیکشن افیسر کے ذریعے کر تا تھا بلکہ بعض معاملات میں وہ بہتر تھا اس شعبے میں بیمار ،معذور اور مستحق ادیبوں ،فنکاروں کو مدد ملتی تھی ادبی اور ثقافتی تنظیموں کو گرانٹ ملتی تھی صوبے کے اندر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی نظامت ثقافت کا جو منصوبہ ناصر علی سید ،ڈاکٹر محمد اعظم اعظم اور سید عاقل شاہ نے سوچا تھا وہ منصوبہ خواب و خیال میں گم ہوا اب کابینہ کے کسی وزیر کے ساتھ دو چار بندوں کی تصویر کشی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا شینا زبان میں چوتھی جماعت کی کتاب والی تصویر سری نگر مقبوضہ کشمیر سے میڈیا پر آنے کے بعد ہماری حکومت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کل کلاں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ شمشاد ٹی وی سے کھوار پروگرام ائیر ہو ،سری نگر سے گوجری کی درسی کتابیں مظفر اباد کو بھیجی جائیں ،جموں ریڈیوسے کالاش زبان میں پروگرام شروع ہوجائے اور ریڈیوکابل سے یدغہ زبان کی نشریات کا آغاز ہوجائے محرومیاں اس طرح جنم لیتی ہیں اور جنم لینے والی محرمیاں اُس وقت ناسور بن جاتی ہیں جب ایسی محرومیوں کی کہانیاں دشمن کے ہاتھ لگ جاتی ہیں شینا زبان کی درسی کتابیں سری نگر اورجموں میں ایسی ہی محرومیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں بعض دانشور مشورہ دیتے ہیں کہ جمہوری حکومت میں پارلیمنٹ سے رجوع کرو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے مسئلہ حل ہو گا لیکن پارلیمنٹ میں شینا ،بلتی ،کھوار ،کالاشہ اور دیگر زبانوں کے حوالے سے محترمہ ماروی میمن کی قرار داد گزشتہ 12سالوں سے زیر غور ہے مارچ 2014 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے 22 زبانوں کیلے قانون سازی کی منظوری دی اب تک وہ قرارداد ایوان میں پیش نہیں ہوئی اسی طرح سینیٹرمحترمہ سسی پلیچو کی قرارداد گزشتہ 2 سالوں سے زیر غور ہے 20فروری 2017 ء کو قائمہ کمیٹی میں پھر اس پر غور ہوا مگر صرف 8زبانوں پراتفاق ہوا شینا ،بلتی ،کھوار اور کلاشہ کو پاکستانی زبان تسلیم کرنے سے ارا کین نے اتفاق نہیں کیا

پاتے نہیں جب راہ تو چڑ ھ جاتے ہیں نا لے

رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

اب پڑوسی ملک نے بڑا قدم اُٹھایا ہے ہمارے ارباب اقتدار کو جنگی بنیادوں پراس مسئلے کو حل کرنا چاہئے ور نہ بات بہت دُور تک چلی جائے گی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button