علی احمد جان
عنوان میں مقامی زبانوں سے میری مراد گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی مادری زبانیں ہیں۔ گلگت بلتستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں شینا، بلتی، بروشسکی، کھوار اور وخی شامل ہیں۔ صرف ان پانچ زبانوں کا ذکر اس لیا گیا ہے کہ ان کو حال ہی میں گلگت بلتستان حکومت نے نصاب میں پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی زبانیں بولی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے مادری زبان کیا ہوتی ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق
"مادری زبان سے مراد ماں کی زبان ہے یعنی یہ وہ زبان ہے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو لوری دیتی ہے اور اسے بولنا سکھاتی ہے ۔ مادری زبان جوکہ بچہ اپنے گھر میں بچپن سے سنتا ہے اور وہ اس زبان کو پہلے پہل بولنا سیکھتا ہے اور یہ زبان بچے کو سکھائی نہیں جاتی بلکہ اس زبان کوبچہ اپنے ماں باپ بھائی بہن اور گھر کے دیگر افراد کی گفتگو کو سن کر خود ہی سیکھ جاتا ہے-”
کہا جاتا ہے ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور اس پہلی درسگاہ میں بچہ جو زبان سیکھتا ہے وہ مادری زبان ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بچے کے سیکھنے کا عمل ماں کے پیٹ کے اندر ہی ہوتا ہے۔ اس لیے پوری دنیا میں ماہرین تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں بچے کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے اور تحقیقاتی ادارے اور ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ انسان کی ذہنی نشونما کے لیے مادری زبان ایک لازمی عنصر ہے۔ اس حوالے سے اگر قوانین کی بات کریں تو اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں طے کردیا ہے کہ بچے کی ا بتدائی تعلیم اس کی مادری زبان کے ذریعہ سے دینا بچے کا حق ہے۔
دیر آید درست آید کے مصداق گلگت بلتستان حکومت کا یہ اقدام نہایت ہی خوش آئند ہے۔ مادری زبان کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی رقمطراز ہیں :
’’دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہئے دنیا کے ہر ملک میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بناناایک فطری اصول سمجھاگیاہے اور غیر ملکی اور اجنبی اور غیر مادری زبان کے ذریعہ ابتدائی تعلیم کے حصول کو غیر فطری غیر ضروری قرار دیاگیاہے اس وسیع عرصہ کائنات میں ہزاروں قومیں آباد ہیں ۔ ایک قوم کی بھی نشان دہی نہیں کی جاسکتی ہے جس نے غیر مادری زبان میں تعلیم کے ذریعہ ترقی اور عروج کی منزلیں طے کی ہوں ۔ مسلمانوں نے تاریخ میں اپنے عروج کے زمانہ میں دنیا کی بہت سی قوموں کے علوم سیکھے تھے لیکن اس طرح نہیں کہ انہوں نے دوسری قوموں کی زبانوں کی درسگاہیں کھول لی ہوں اور دوسری زبانوں کو اپنا ذریعہ تعلیم بنالیاہو۔ آج بھی چین میں چینی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ انگریزی زبان یا کوئی غیر ملکی زبان کاسیکھنا بہت مفید ہے اور ایک زبان کی حیثیت سے اس کا پڑھنا اور پڑھانا اوراس میں مہارت پیدا کرلینا بہت اچھی بات ہے اور قومی ترقی کیلئے ناگزیر بھی ہے۔ ‘‘(اردو کے مسائل، قومی زبان، ڈسمبر؍جنوری2007-08ء حیدرآباد)
گلگت بلتستان حکومت نے اپنے اس فیصلے کے بعد شینا، بروشسکی اور بلتی زبان پرائمری سطح میں پڑھانے کے لیے قائدہ ترتیب دیا ہے جبکہ کھوار اور وخی پر کام جاری ہے۔ جو عنقریب اگلے چند ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔ منتظمین کے مطابق اسی دوران اساتذہ کو بھی تربیت دی جائے گی کہ وہ مقامی زبانوں میں بچوں کو کیسے پڑھائیں گے۔
بہت سارے لوگوں ان اقدامات کو سراہنے کے بجائے مخالفت بھی کر رہے ہیں وہ شاید مادری زبان کی اہمیت اور افادیت سے واقف نہیں۔ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے تحیقات اور دلائل موجود ہیں۔ دنیا میں صرف دو ایسی زبانیں ہیں جنہیں انسان بغیر کسی علم و اکتساب کے سیکھتا اور سمجھتا ہے ،ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان جسے بین الاقوامی زبان (یونیورسل لینگویج ) بھی کہا جاتا ہے۔
مختلف علوم (سائنسی،تکنیکی،فنی اور دیگر علوم لطیف(فائن آرٹس))کے تصوراتی فہم اورمعلومات کی ترسیل میں مادری زبان سب سے بہتر اور موثر وسیلہ ہوتی ہے۔مادری زبان اپنے پہلومیں تمام عصری علوم کے نفس مضمون اور تصورات کو بغیر کسی اصطلاح کے سمجھنے ،سمجھانے اور ترسیل و ابلاغ کی گنجائش رکھتی ہے۔ مادری زبان کے دیگر فوائد کےحوالے سے انعام اللہ خاں شیروانی نے اپنی کتاب تدریس زبان اردو میں مادری زبان سکھانے کے چند مقاصد کوبیان کیا ہے
(۱) طلباء کو ذہنی اور دماغی طورپر آزاد کرنا ۔ مادری زبان کے ذریعہ بچہ اپنی زندگی کے متعلق آزادی سے سوچ سکتاہے اور اپنے خیالات کو آزادی سے دوسروں تک پہنچاسکتاہے۔
(۲) تہذیب وتمدن ،فنون لطیفہ اورتجارت و صنعت کی طرف بچوں کو مائل کرنا اور ان کی خوب صورتی اور ترقی میں اضافہ وتکمیل۔
(۳) طلباء میں نجی، انفرادی،سماجی اور قومی زندگی سے دلچسپی پیدا کرنا۔
(۴) بولنا، پڑھنا، لکھنا، تحریر و تقریر میں صلاحیت، قواعد پر عبور،زبان میں سلاست وسادگی ،قوت مشاہدہ، فکر ونظر کی نشوونما اور خیالات کا بہتر اظہار۔
(۵) ایک اچھا شہری بنانے کے علاوہ عمدہ لیڈرشپ کی تربیت اور انفرادی صلاحیتوں کا مالک بنانا۔
کچھ ماہرِ لسانیات کے مطابق کسی بھی معاشرے کی مادری زبان اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ خاص طور پر مادری زبان کے استعمال سے شرح خواندگی میں آسانی سے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کی کئی زبانیں بشمول بروشسکی، شینا، کھوار endangered languages کی فہرست میں شامل ہیں۔ تحقیق کے مطابق اس فہرست میں شامل زبانوں کی بقاء کو خطرہ لاحق ہے یعنی ان زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے اور ان زبانوں میں دیگر زبانوں کے الفاظ کثرت سے شامل ہورہے ہیں۔ یہی سلسلہ جاری رہا تو اگلے چند سالوں میں یہ زبانیں ٰextinct languages کی فہرست میں شامل ہونگی۔ extinct languages زبانوں کی فہرست میں بھی بدقسمتی سے ہنزہ مومن آباد مین بولی جانے والی ڈوماکی شامل ہے۔ اگر ان زبانوں کی احیاء کے لیے اقدامات نہ کئے گئے تو صورت حال بدیشی زبان جیسی ہوگی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بدیشی زبان سمجھنے اور بولنے والے صرف تین بزرگ حیات ہیں۔ مادری زبان کو نصاب کا حصہ بنانے کا بعد زبانوں کی احیاء اور ترویج و ترقی میں حائل کئی رکاوٹیں اور مشکلات دور ہوستی ہیں کیونکہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں اپنی مادری زبان کی قدرو قیمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بچے جب مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہیں تو یہ سوچنے لگتے ہیں کہ علمی اعتبارسے ان کی مادری زبان اہمیت و افادیت سے عاری ہے اور ان میں اپنی زبان سے محبت اور احترام کا جذبہ کم ہونے لگتاہے۔مادر ی زبان میں تعلیم کے متعلق یونیسکو کا کہنا ہے کہ ’’برسوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی ا ن کی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔ا ن کی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔اس نتیجہ پر ہر کہیں عمل ہورہا ہے اگر چہ ہم اب بھی ایسی حکومتوں کے بارے میں سنتے ہیں جو چھوٹے بچوں پر اجنبی زبان تھوپنے پر اصرار کرتے ہیں،وہ ایسا یا تو غلطی سے جدیدیت کی خاطر کر رہے ہوتے ہیں یا سماجی طورپر حاوی گروہ کی زبان کو فو قیت دینے کی خاطر ایسا کر رہے ہوتے ہیں’’۔یو نیسکو نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلق یونیسکو کی جاری کردہ پالیسی میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں کو ابتدائی 6سال تک مادری زبان میں ہی تعلیم دی جانی چاہئے، تاکہ جو کچھ بچوں نے سیکھا ہے وہ بھول نہ پائیں۔
گوکہ گلگت بلتستان مین بولی جانے والی زبانوں ، جن کو نصاب مین شامل کیا جارہا ہے کی رسم الخط اور لہجوں کے انتخاب پر جھگڑے چل رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام لہجوں کے متفقہ رسم الخط کے حوالے سے تمام لوگوں کو اعتماد میں لے اور ماہرین لسانیات کی خدمات حاصل کر کے لہجوں اور رسم الخط کے جھگڑے کو بھی خوش اسلوبی سے حل کرے تاکہ اس کے دیرپا نتائج مرتب ہوں۔
مثال کے طور پر بروشسکی کے لیے عربک، اور بلتی زبان کے کئی افراد اس رسم الخط سے مطمئین نہیں ہیں۔ ان کا موقف بھی کسی حد تک درست ہے کہ آج ٹیکنالوجی کے اس دور میں عربک رسم الخط User Friendly نہیں اور بروشسکی میں چھے سے ذائد آوازیں ایسی ہین جن کے لیے ادرو اوار عربی میں حروف تہجی موجود نہیں۔ جبکہ بلتی کے کچھ محقیقین تبت میں رائج سنسکرت رسم الخط (اگے)کو بلتی زبان کی ترقی اور احیاء کا ضامن سمجھتے ہیں۔
آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علاقے کے بہتر مستقبل کے لیے صرف پرائمری سطح پر ہی نہیں بلکہ کالج اور جامعات سطح تک مقامی زبانوں کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔ اور اس سے بھی اہم بات ان نصابی کتب میں شامل مضامین بھی علاقے کی تاریخ اور ادب کے بارے میں ہو۔ اگر مینار پاکستان کے بارے پہلے اردو میں پڑھایا جانے والا مضمون اب شینا میں پڑھانے سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ گلگت بلتسان کے کسی تاریخی مقام یا عمارت کے بارے میں پڑھایا جائے۔