کالمز

اے کپ آف ٹی

چائے کی شرینی و حلاوت میں اُس وقت اور اضافہ ہو جاتا ہے جب چائے پلانے والا کوئی محبت کرنے والا انسان ہو۔ میرے محترم سید محمد عباس کاظمی صاحب کی چائے نے جہاں تھکاوٹ کافور کر دیا وہاں ان کی مہمان نوازی، حلیمی، ملنساری اور اخلاق مادیت پرستی اور اپنی انا کے خول میں بند آدمیوں کے اس معاشرے میں مجھے حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھا۔ شاہ صاحب نے غالباً مولا علی علیہ السلام کے اس قولِ پاک کو پلے باندھ رکھا ہے ’’بلندی کو اللہ نے عاجزی اور انکساری میں رکھ دیا ہے اور لوگ اُسے تکبری میں تلاش کرتے ہیں۔‘‘

میں نے دسترخواں میں بلتستان کے لذیز کھانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب شاہ صاحب سے کہا کہ محترم اتنا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ شاہ صاحب بولے ’’نہیں سر! جسٹ اے کپ آف ٹی۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں۔‘‘ واقعی لنچ کے بعد اے کپ آف ٹی کے ساتھ شاہ صاحب کی علمی گفتگو نے بہت سرشار کر دیا۔

شاہ صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ ایک دن انباکس میں ان کی طرف سے ایک مسیج آیا کہ ’’کریمی صاحب! ہم آپ سے ناراض ہیں آپ سکردو دو دفعہ آئے اور ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ ملاقات کریں۔‘‘ میں یہ پیغام پڑھ کے حیران ہوا۔ حالانکہ ہماری پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن یہ شاہ صاحب کا بڑاپن تھا کہ وہ میری تحریروں کے ذریعے مجھے جانتے تھے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا اس دفعہ جب سکردو آنا ہوا تو خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا۔ پھر جب سکردو پہنچ کے ابھی ایک آدھ دن ہی ہوئے تھے کہ شاہ کی دوربین نگاہوں نے سوشل میڈیا پر میری سکردو آمد کی خبریں پڑھی تھیں سو ان کا مسیج آیا ’’کریمی صاحب! امید ہے اس دفعہ وعدہ وفا ہوگا۔‘‘ میں نے کہا ’’شاہ صاحب! بسرو چشم!‘‘

اب میں شاہ صاحب کے گھر کی طرف پا بہ رکاب تھا۔ گاڑی مجھے مقررہ جگہے پر اتار کے گئی تھی۔ میں نے شاہ صاحب کو فون کیا کہ محترم میں آپ کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچ چکا ہوں۔ پھر کیا تھا تھوڑی دیر بعد سراپا محبت ایک شخصیت گاڑی سے اتر کے مجھ سے بغلگیر ہوئی تھی۔ محبت ان کی انگ انگ سے چھلک رہی تھی۔ بلتی لب و لہجے میں جب بات کرنے لگے تو ان کی باتوں کی مٹھاس دل میں اتر گئی۔ ان کے دولت خانے میں داخل ہوتے ہوئے گاؤ تکیوں پہ ابھی دراز ہی ہوا تھا کہ شاہ صاحب نے کہا ’’یہ میرا غریب خانہ ہے۔‘‘ میں نے کہا ‘‘شاہ صاحب! میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہر غریب کو ایسا خانہ عنایت فرمائے۔‘‘ شاہ صاحب کے گھر میں جس چیز نے مجھے غذر کی تہذیب کی یاد دلائی وہ دسترخواں پر بیٹھنے کا انداز تھا ہمارے غذر میں بھی ٹیبل کلچر نہیں بلکہ دسترخواں کے اردگرد نیچے بیٹھ کے کھانا کھایا جاتا ہے۔ شکر ہے کہ کھڑا کھانے کی ترقی یافتہ یا یوں کہیئے بے تہذیب یافتہ چیزیں یعنی میز کرسی کی کلچر نے ابھی تک ہمارے علاقے کو متاثر نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے ادب آداب اور احترام ابھی باقی ہے اللہ کرے ہم ایسی ترقی نہ کریں کہ جس کی وجہ سے ہماری مہذب تہذیب و ثقافت متاثر ہو۔

شاہ صاحب سے بہت اچھی گفتگو رہی۔ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والے بے باک قلم کار ہیں۔ سچ کو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے۔ بھلا یہ کسی کو ہضم ہو یا نہ ہو۔ ان کی کئی تصانیف بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تصنیف بھی مجھے اعزازی طور پر عنایت فرمائی جس پر انشا اللہ تفصیلی تبصرہ لکھوں گا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھی انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے پڑھے ہیں۔ یو ایس کی طرف سے ان کو شاید آنریریبل کا خطاب بھی ملا ہے۔ میں نے ان کے نام کے ساتھ اکثر آنریبل کا لاحقہ دیکھا ہے۔

شاہ صاحب سے مل کر مجھے جس چیز نے متاثر کیا وہ ان کا پُرخلوص انداز تھا۔ جب وہ مجھے رخصت کرنے باہر گیٹ تک آئے اور کمر تک جھکتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول کر جب تک مجھے گاڑی میں نہیں بٹھایا ان کو چین نہیں آیا۔ جو لوگ خاندانی بڑے ہوتے ہیں ان کا انداز یہی ہوتا ہے۔ ان کا یہ پُرخلوص انداز دیکھ کر مجھے بانو قدسیہ بے اختیار یاد آئیں۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی ہے:

’’چھوٹا بن کے رہو گے تو بڑی بڑی رحمتیں ملیں گی کیونکہ بڑا ہونے پہ تو ماں بھی گود سے اتار دیتی ہے۔‘‘

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button