گلگت بلتستان کے باسی اور امراض قلب
تحریر :ظفراقبال
انسان نے جب روئے زمین پر جب قدم رکھا تو ساتھ ہی مشکلات اور مصائب نے بھی انہیں گھیر لی،یہ مشکلات وقتی نہیں تھیں، بلکہ سائے کی طرح ہمیشہ انسانی زندگی کے ساتھ رہیں۔ان مسائل میں سر فہرست وہ مہلک بیماریاں تھیں ،جنہوں نے کئی دفعہ انسانی وجود کو صفیہ ہستی سے مٹا دیا تھا،قدیم انسان ان بیماریوں کے اسباب سے نا اشنا تھے،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ان بیماریوں کو مافق الفطرت طاقتوں کی کارستانی قرار دی،اور ان مافق الافطرت طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انسانوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کی،اور انسانی زندگی ان توہمات کی بھید چڑھ گئی،یہ انسانی حیات کا ایک طویل عرصہ تھا،
تین ہزار سال قبل مسیح میں جدید تہذیبوں کا اغاز ہوا،لیکن مہلک بیماریوں کی روک تھام میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی،جن بیماریوں نے انسانی حیات کو اجیرن کر کے رکھ دیا تھا ان میں طاعون اور چیچک قابل ذکر تھیں،
١٥ویں صدی عسوی میں طاعون کی بیماری پورے یورپ میں پھیل گئی،یہ بیماری اتنی تیزی سے پھیل گئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کی ٦٠ فیصد آبادی لقمہ اجل بن گئی،اور جو ٤٠فیصد آبادی بچ چکی تھی ان کے بھی جسمانی خدوخال بدل چکے تھے،
١٩ ویں کو انسانی تاریخ کا اہم صدی مانا جاتا ہے ،کیونکہ اس صدی میں دو عظيم انسانوں نے بیماریوں کے سبب بننے والے محرکات کا پتہ چلایا۔ایڈورڈ جینیر ،،جو کہ ایک برطانوی سرجن تھا،،نے چچک کا علاج دریافت کیا،،اور دنیا کی مہذب چہرے سے چچک جیسے بدنما داغ کا مٹا دیا،
انہی عشروں میں فرانسیسی ڈاکٹر لوئس پاسچر نے بیماریوں کا سبب بننے والے جراثیم کا کھوج لگایا۔یہ تاریخ انسانی میں پہلا واقعہ تھا کہ انسان نے اپنے ان دیکھے دشمنوں کا پتہ لگا لیا۔اور ان جراثیموں کے خلاف جسم میں قوت مدافعت پیدا کرنے والی دوا ایجاد کی،
یوں پوری دنیا میں شرح اموات میں خاطرخواہ کمی ہوئی۔تیسری دنیا کے غریب ممالک بھی بعد کے ادوار میں ان ادویات اور طریقہ علاج سے مستفید ہوتے رہے۔
گلگت بلتستان اپنی مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ایک عرصے تک ماندہ دنیا سے الگ تھلگ رہا۔ ایک وقت وہ بھی ایا کہ یہ خط وسطی ایشیائی ممالک اور چین کے درمیان تجارت کے لئے ایک دروازہ تصور کیا جانے لگا۔یارقند سے بخارا تک تجارتی قافلے یہی سے گزرتے تھے۔
بدقسمتی سے ان دنوں گلگت بلتستان کے تمام تاریخی راستوں کو بند رکھ کر حکومت پاکستان نے یہاں کے عوام کے ساتھ تاریخی ناانصافی کی ہے،اور گلگت بلتستان کو اپنے ناقص اور غیر معیاری اشیاء کی سپلائی کے لئے ایک منڈی بنا کر رکھا ہوا ہے،یہاں کے عوام پاکستانی مصنوعات کے بڑے خریدار ہیں،حالانکہ بڑے شہروں میں پاکستانی مصنوعات کو کوئی منہ تک نہیں لگاتے ،یہی وجہ ہے کہ صدر مملکت جناب عارف علوی کو کہنا پڑا کہ پاکستان کے عوام اپنے ملک کے بنائے ہوئے مصنوعات استعمال کریں،تاکہ ملک اس معاشی بحران کے گرداب سے نکل سکے، غرض تاریخی راستوں کی بندش سے گلگت بلتستان کے عوام ان ناقص اشیاء خوردنوش مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں،جس کی وجہ سے ایک تو معاشی طور پر کمزور ہو رہے ہیں اور دوسری طرف مختلف مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو کر ایک خطیر رقم علاج کی مد میں خرچ کر رہے ہیں،یوں ادویات کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔طلب میں اضافے کو دیکھ کر رسد بھی بڑھایا جاتا ہے ۔یوں ہماری ایک بھاری رقم ادویات بنانے والی کمپنیوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔
حالیہ دنوں گلگت بلتستان میں دل کی بیماریاں بہت عام ہوتیں جا رہیں ہیں،ائے روز حرکت قلب بند ہونے سے اموات کی خبریں میڈیا میں گردش کرتے رہتے ہیں،
اور شرح اموات کا گراف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے،تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ موت کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد کی عمریں ٣٥ سے ٤٥ سال درمیان ہیں،
ضرورت اس امر کی ہے ،کہ گلگت بلتستان کے ہر فرد کو دل کی بیماری کے سبب بننے والے عوامل سے آگاه ہونا لازمی ہے،اگر ہم ان عوامل سے آگاہ رہے تو شرح اموات میں کسی حد تک کمی ہو سکتی ہے۔
لپڈ دو قسم کے ہوتیں ہیں،پہلی قسم حل پزیر لپڈ کی ہے ،یہ وہ لپڈس ہوتے ہیں ،جو خوراک کے ہضم ہونے کے دوران چکنائی کی شکل میں خون میں شامل ہوتے ہیں۔اور خون میں کولیسٹرول کی اوسط مقدار کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں، کولیسٹرول کی یہ مقدار جب ٢٤٠ایم ایل سے تجاوز کرتا ہے تو دل کا دورہ پڑنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں،حل پزیر لپڈ کی مقدار کو برقرار یا کم کرنے کے لئے روزمره کی خوراک میں ان اشیاء کی استعمال سے گریز کرنا چائیے جن سے کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتا ہے،ان اشیاء میں گھی ،ڈالڈہ،گوشت،انڈے کی زردی،چاکلیٹ ،بلائی وغیرہ شامل ہیں،وہ تمام افراد جن کے خون میں کولیسٹرول کی مقدار بتدریج بڑھ رہا ہے ،تو ان چیزوں کے استعمال سے گریز کریں،سبزیوں اور پھل فروٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چائیے،ورزش اور پیدل چلنے کو ترجیح دیں،
لپڈس کی دوسری قسم وہ ہوتیں ہیں، جو غیر حل پزیر ہوتے ہیں،اچھے کوالٹی کے پکوان تیل میں ٧٠ فیصد غیر حل پزیر لپڈس ہوتے ہیں۔یہ لپڈس دوران ہضم خون میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔اس لئے گھر میں جمنے والا ڈالڈہ کے استعمال کے بجائے تیل کا استعمال کریں،
یوں تو دل کے امراض کے بہت سارے وجوہات ہو سکتں ہیں ،لیکن خون میں موجود چار عناصر کا براہ راست تعلق دل سے ہے،١ کولیسٹرول ٢ ٹرائگلوسیرائیٹس٣ ایچ ڈی ایل٤ ایل ڈی ایل،
ایچ ڈی ایل اچھا کولیسٹرول ہوتا ہے،جس کا بڑھنا نقصان دہ نہیں بلکہ فائده مند ہے،جبکہ ایل ڈی ایل bed cholesterol ہوتا ہے،ممکنہ حد تک اس کو بڑھنے نہ دینا چائیے،
میں گلگت بلتستان کے ان تمام افراد سے گزارش کروں گا جن کی عمریں ٣٠ سال سے زیادہ ہے،کسی اچھے لیبارٹری سے اپنے خون میں موجود ان چار عناصر کا ضرور چیک اپ کرائے ،تاکہ حادثے سے قبل پرہیز یا علاج کے زریعے ممکنہ خطرے سے خود کو بچا سکتے ہیں،
خون میں موجود ان عناصر کے بڑھنے میں ان ناقص اشیاء خوردنوش کا بھی براہ راست ہاتھ ہے ،جو گلگت بلتستان کی مارکیٹس میں بھریں پڑیں ہیں،نا جائز منع کی چکر میں یہ موت کے سوداگر عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ،ان کو بے نقاب کرنے والے لوگ موجود نہیں ،بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں صحافت سیاسی لوگوں کے گھر کی لومڑی بن کے رہ گئی ہے،رہی الیکٹرونگ میڈیا تو ان کو گلگت بلتستان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں،ان کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ گلگت بلتستان کو دنیا کے سامنے بدنام کرنا،اور اپنے ریٹنگ بڑھانے کے لئے وقت انے پر عزت دار گھرانوں کے لڑکیوں کو نچانا۔
ضرورت کی اشیاء کی معیار چیک کرنے کے لئے سرے سے ہی کوئی اداره گلگت بلتستان میں موجود ہی نہیں ،بازار میں موجود ہر چیز ناقص اور غیر معیاری ہے،جن کے استعمال سے یہاں پر دل کے امراض عام ہوتے جا رہے ہیں،ارباب اختیار سے گزارش کروں گا کہ گلگت بلتستان میں موجود ان موت کے سوداگروں کے گرد گھیرہ تنگ کریں،ان کو قرار واقعی سزا دے۔اور ضرورت کی اشیاء کی معیار چیک کریں۔لوگوں کی زندگیوں کو بچائے ۔