صفدرعلی صفدر
وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی کا شکریہ کہ جنہوں نے نہایت ہی محترم جناب جمشیدخان دکھی صاحب کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں اپنے ماتحت جامع کے لئے اعلیٰ پائیے کا سفیر(Ambassador at Large) مقرر کیا۔
یقیاً دکھی صاحب اس اعزاز کے مستحق تھے اور ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ وہ بیک وقت اپنی شاعری، نثرنگاری، کالم نویسی اور فنِ نظامت کے ذریعے جہاں متعلقہ شعبے سے شغف رکھنے والوں کی روحوں کو تازگی بخشتے ہیں وہی گلگت جیسے مخدوش معاشرے میں پائیدار امن، اتحاد ویگانگت اور اخوت و بھائی چارے کے پھول بکھیرتےہیں۔
ان کی شاعری کی میٹھاس کے سامنے شہد اور شکربھی عبث ہے۔ ان کے کلام سننے سے زبح شدہ جانور کی کھال اتارنے کی مانند سرسے لیکر پاوں تک قومی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ ان کی سادگی اور طرز زندگی دنیاوی حوس اور دولت و شہرت کے پجاریوں کے لئے عملی نمونہ ہے۔
ان کے اندر دل ہے اور اس دل میں پوری دنیا سموئی ہے۔ وہی دنیا اس کی دھرتی ماں ہے اور انہیں ہروقت اس ماں کے کھلکھلاتے ہوئے چہرے کی فکر ہے کیونکہ ماں تو آخر ماں ہے، بچوں کی لڑائی کا دکھ ہویا غیرکی نااںصافی، تکلیف کی شدت کا احساس ماں ہی کو ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دکھی صاحب خود کو دکھی رکھ کرماں اور خاندان کو سکھ دینے میں سرگرداں ہیں۔
بات دکھی صاحب کی ذات کی نہیں صحبت کی بھی ہے کیونکہ صحبت کا اثرانسان کی شخصیت میں عیاں ہوتا ہے۔ صحبت بھی ان کی ایسی ہے کہ جس پر دنیا رشک کرتی ہے۔
حلقہ ارباب ذوق کا تعارف توہرکس وناکس کو ہوگا۔ مگر حلقے کے احباب کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ نہ حلقہ ہے نہ فرقہ، یہ صرف ایک چھوٹا سا گلدستہ ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول اپنی منفرد خوشبوں سے معاشرے کو معطر کرتے ہیں۔
اس گلدستے کا ایک تاج ہے جو حلقے کی رونق ہے۔ ایک ضیا ہے جو حلقے میں اجالے کا سبب ہے۔ ایک نسیم ہے جو حلقے کو سحرکی مانند تروتازگی بخشتی ہے۔ ایک شاکر ہے جو حلقے کا شادیانہ ہے۔ ایک اشتیاق ہے جو اس گلدستے کی آبیاری کی یاد دلاتا ہے۔ ایک سلیم ہے جو حلیم ہے، واقعی حلیم۔۔۔حلیم کا ذائقہ تو جس نے چکا ہو وہی بہتر جان سکتا ہے۔ اور ان سب کی سرپرستی میں ایک طارق ہے جو ان سب کے چہروں پر مسکراہٹ کی خوشی ہے۔ یہ سب گلگت بلتستان کے لئے انسان نما ہیرے ہیں اور ان ہیروں کی قدردانہ ہم سب پر لازم ہے۔ چاہے وہ انفرادی عقیدت کی صورت میں ہو یا ادارہ جاتی سند کی شکل میں۔
میرے لئے تو اقبال بھی یہی، فیض بھی یہی جون بھی یہی ہیں۔
یہ حلقہ ارباب کے گل شاد رہیں آباد۔۔