کالمز

جنوری کی پہلی رات، اسلام آباد کی برستی آکاش، محبت یا خواہشاتِ نفس، ایک سوال، ایک وضاحت

دسمبر کی آخری رات پر کل کی ہماری تحریر ’’دسمبر کی آخری چند ساعتیں، اسلام آباد کی ڈھلتی اداس رات، میں ’’خدا اور محبت‘‘ پر ہمارے دوست ڈاکٹر انصار مدنی صاحب ’’فکرونظر‘‘ کتابی سلسلہ وٹس ایب گروپ میں شکوہ کناں نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا:

’’عبد الکریم کریمی خوبصورت تحریروں اور لہجوں کے مشتاق ہیں تبھی آپ کے مضامین کا حسن انتخاب حسین ہوتا ہے۔ آج کی اس تحریر میں جس لطیف ترین حس کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی جسے آج دنیا محبت کا نام دے کر دوسروں کے حرم میں داخل ہونا اپنا حق اور اعزاز سمجھتی ہے۔ جس طرح حضرت زلیخا علیہا السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے آج کی زبان میں اظہارِ محبت کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے حضرت زلیخا کے دعوائے محبت کو خواہشاتِ نفس کا نام دیا۔ اس حوالے سے کریمی صاحب کی خوبصورت تحریر کا انتظار رہے گا۔‘‘

میں نے گروپ میں اس شکوے کے جواب میں کچھ یوں عرض کیا تھا۔ محترم ڈاکٹر انصار مدنی صاحب! محبتوں کا شکریہ! جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے میرا یہ ماننا ہے کہ عشق مجازی سے گزرنے کے بعد ہی عشق حقیقی کی سیٹرھیوں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ خالق کی محبت مخلوق کی محبت سے مشروط ہے۔ حضرت زلیخا علیہا السلام اگر حضرت یوسف علیہ السلام کے مجازی عشق میں مبتلا نہیں ہوتیں تو وہ کبھی بھی عشق حقیقی کی لذت سے آشنا نہیں ہو پاتیں۔ آپ ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو دیکھیں کہ یوسف کے لیے پل پل تڑپنے والی زلیخا جب یوسف کو پالتی ہیں تو یہی محبت ان کو عطا کرنے والے کے عشق حقیقی کی اسیر بنا لیتی ہے۔ ہاں آپ کا کہنا درست ہے کہ دوسروں کے حرم میں داخل ہونا یا نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے محبت جیسے پاکیزہ احساس کو کسی طور داغدار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی روش مطلب پرستی ہوسکتی ہے عشق مجازی یا محبت ہرگز نہیں۔

آخری بات!

جہاں دسمبر کی آخری رات اداس تھی۔ آج جنوری کی پہلی برستی رات نے تو حد کردی۔ کسی دل جلے کا کہنا ہے مجھے بارش بہت پسند کہ یہ آپ کے آنسو چھپاتی ہے۔ برستی بارش میں آنسو کے قطرے شاید نظر نہیں آتے ہیں۔ بارش کا شکریہ کہ تم نے ساتھ دیا۔ میرے ہوٹل کی کھڑی سے لی گئی زیر نظر تصویر اس مہربان بارش کی عینی شاہد ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button