عالمی سیاست پر امام خمینی علیہ الرحمہ اور انقلاب اسلامی ایران کے اثرات …. قسط ۱
حجت الاسلام ڈاکٹر فرمان علی شگری
Farman.shigari@gmail.com
مقدمہ
بیسویں عیسوی صدی کے آخر میں اسلامی انقلاب ایران کا وقوع پذیر ہونا، بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ،جسکی مختلف زاویوں سے دقت کے ساتہ مطالعہ کی ضرورت تو پہلے سے ہی تھی۔ بعض مکانی اور زمانی خصوصیات اور خطے میں اسکے بڑھتے ہوے اثرات کی وجہ سے اسکی اہمیت اب اور بھی بڑھ گئی ہے، ایران اس وقت عالمی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ایران کا اسلامی انقلاب ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب دنیا بھر میں دین کا سماجی اور سیاسی چہرا عالمی منظر سے ناپید ہوتا جارہا تھا اور اسلامی حکومت کا تصور ایک قصہ پارینہ ہوچکا تھا۔اگرچہ آج جبکہ انقلاب کو برٍپا ہوا 40 برس ہوچکے ہیں اور سامراجی طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف خطے کی سب سے مضبوط فوجی اور سیاسی لحاظ سے بانفوذ قدرت بن چکا ہے جسکو معروف برطانوی تجزیہ نگار رابرٹ فکس اسطرح تحلیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں” ایران کے ہاتھوں عراق اور شام میں داعش کی شکست کے بعد مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی عملا ناکام ہوچکی ہے”،مغربی استعماری طاقتوں سے مرعوب کچھاہل قلم کیلئے اب بھی اسلامی سیاسی نظریہ کانفاذ غیر ممکن نظر آتے ہے۔
انقلاب ایران ا یسے وقت میں کامیاب ہوا جب شاہ کی حکومت کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پھر پور حمایت حاصل تھی۔ ایران اور اسکے ہمسایہ ممالک انرجی کے مرکز تھے، یہ علاقہ عالمی اقتصاد کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔جسکا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ سے نکل کر انقلابی قیادت کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ جن کی اولین ترجیحات استکباری نظام اور استعماری سیاست کا خاتمہ اور اسلامی قوانین کا نفاذ تھا، یہ وہ مقاصد تھے جن کیلیے اسلامی تنظیمیں اور خطے کے مسلمان اپنے اپنے طور پر گذشتہ ایک صدی سے کوشش کررہے تھے۔ اسلیے انقلاب نے اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے دل میں اپنے ممالک میں بھی اسلامی حکومت کے قیام کی آرزو اور اسکے لیے کوششں کرنے والوں میں امید کی تازہ روح پھونک دی۔ البتہ دوسری طرف سے ایران خطے کی استبدادی اور شہنشاہی حکومتوں کے درمیان فاصلیبڑھ گئے جو ایک طبیعی عکس العمل تھا کیوں کہ عرب حکمران بہ خوبی آگاہ تھے کہ یہ انقلاب ایران تک محدود نہیں رہے گا،عنقریب انکی عوام بھی آزادی اور اسلامی حکومت کا مطالبہ کرینگے۔ دوسری طرف سے ایک ایسی آزاد اسلامی حکومت کا قیام، جسکا نعرہ نہ شرقی و نہ غربی تھا ،مغربی دنیا سے بھی اس کے تعلقات پر اثر پڑا کیونکہ اس انقلاب سے یورپی خاصکر امریکی معاشی اور سیاسی منصوبوں کو شدید دھچکا لگا اور ان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے۔اسلیے انقلاب کے فورا بعد صدام حسین نے ایران عراق سے امن معاہدہ کی یک سرخلاف ورزی کرتے ہوے ،امریکہ ،یورٍپ اور خطے کی بعض حکومتوں کی مالی،تسلیحاتی اور فوجی مدد کے ساتھ ایران پر حملہ کیا گیا، اور یورپی حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ کیمیکل ہتیاروں سے بے گناہ شہریوں پر حملے کر کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔اور ان ہی انسانی حقوق اور جمہوریت کے دعوے دار طاقتوں نے اپنی نا حق ویٹو پاور کو استعمال کرکے ہو? صدام جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف پیش ہونے والی کسی بھی مذمتی قرارداد کو کامیاب نہ ہونے دیا۔
انقلاب کے عالمی اثرات کو ایران کی جیؤپلیٹک اور جیو اسٹراٹیجک حیثیت نے اور زیادہ شدت بخشی۔ یہ انقلاب لیبریزم اور سوشلیزم کے مقابلے میں ، تیسری دنیا کیمستعضف اور پسے ہوے عوام لیے ایک رول ماڈل اورآرمان میں بدل ہو گیا۔ جسکے نتیجہ میں عالمی سیاست میں اسلامی انقلاب ایک تیسری نئی قوت اور نظریہ کی صورت میں ابھر کے سامنے آیا۔
انقلاب کی تعریف
لفظ انقلاب پہلی نظر میں ایک ملک کی سیاسی حکومت میں بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ انقلاب ایک دیرینہ، عادت میں اچانک تبدیلی کا نام ہے۔ حکومت قانون وضع کرتی ہے، اسے نافذ کرتی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو سزادیتی ہے۔ اچانک ایک حکومت سے یہ سب اختیارات سلب ہو جائیں اور اس نظام سے تعلق رکھنے والے دور و نزدیک کے تمام افراد سیاسی اور سماجی اختیارات سلب ہوجائیں اور ایک حکومت جو تمام سیاسی اقتدار، سماجی اور ثقافتی مراکز کو کنٹرول کر کے معاشرے کے اتار چڑھاؤ کو جو اپنے قابو میں رکھتی تھی، اچانک سرنگون ہوجا? اور اسکی جگہ پر ایک نئی حکومت بر سر اقتدار آجائے۔
شورش اور مارشل لا
بغاوت، شورش اور ناراضگی کے بحران کے نتیجہ میں سیاسی نظام کے ایڈمنسڑیشن میں تبدیلی آتی ہیں، لیکن اس کی بنیادوں کو اکھاڑ کر ان کو بالکل تبدیل کرنے کا سبب نہیں بنتے۔ بغاوت میں صرف خود تبدیلی کی اہمیت ہے نہ اس کی جگہ پر جانشین نظام کی۔
جو معاشرہ حکمران طبقہ سے مکمل طور پر ناامید نہ ہوا ہو، وہ امید رکھتا ہے کہ بعض اصلاحات کے ذریعہ معاشرہ پر حکمراں طبقہ کے حالات میں کسی طرح تبدیلی ایجاد کرکے کم سے کم نقصان پر اپنے مطالبات کو معمول کے مطابق نظام کے اندر ہی پورا کرے۔ اس تحریک اور تبدیلی کو اصلاحات کہتے ہیں۔
لفظ "انقلاب” کی تعریف میں پائی جانے والے تمام اختلافات کے باوجود، ایک نکتہ جو یقینی طور پر ہر ایک کے نزدیک مطلوب ہے وہ یہ کہ انقلاب کا معنی:” ایک معاشرہ کے اندر مختلف جہتوں سے تحول یعنی تحمیلی اقتدار و اعتقاد، سیاسی اداروں، اجتماعی ڈھانچوں، قیادت کے آئین و اصول اور سرگرمیوں میں فوری اور بنیادی تبدیلی لانے کی ایک تحریک ہے جو تشدد کے ساتھ ہو۔
صدور انقلاب کے بارے میں امام خمینی (س ح) کا فرمان
امام خمینی(رہ) ایک ایسے عظیم انقلاب کے موجد و بانی تھے جس نے شہنشاہوں کے2500سالہ اقتدار کا یکسر خاتمہ کیا۔انہوں نے اپنی بے لوث و پرخلوص قیادت کے بل بوتے پر امریکہ ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے ایک خالص اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا (اوردنیا بھر میں اسکے فروغ کیلیے آخری دم تک اپنی کوششیں جاری رکھی)۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے سرزمین ایران کے پاکیزہ دل نوجوان،اور خواتین جن کے سینوں میں اسلامی جوش وخروش اور انقلابی لہر موجزن تھی ‘ عیش وآرام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے۔انہوں نے شاہی نظام کے مقابلے میں،امام خمینی(رہ) کے فرمان پر لبیک کہتے ہوے،سلطنتی نظام کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا نعرہ بلند کیا۔ الغرض پرخلوص اور دیانتدارانہ قیادت کے زیر اثرپسی ہوئی قوم کواسلامی انقلاب کے طلوع کی خوش خبری سننے کو ملی۔ امام خمینی (ر ح) کا مقصد صرف ایرانی قوم کی بیداری نہیں تھا بلکہ آپ دنیا کے سو? اقوام کو اپنے حقوق کے دفاع اور ظالم ،استعماری اور انکی حمایت سے قائم ہونے والی استبدادی حکومتوں کے خلاف قیام کیلیے بیدار کرنا تھا اس لیے آپ نے فرمایا:” اس انقلاب کوصادر (اس انقلابی فکر کو دوسری قوموں تک پہنچانے) کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تمام سپر طاقتیں اور دیگر حکومتیں ہمیں نابود کرنا چاہتی ہیں، اگر ہم ایک بند ماحول میں رہیں تو اس کا نتیجہ نا کامی اور شکست ہوگا۔”امام کے اس پیام میں ایک مضبوط پبلک ڈیپلومیسی کی طرف راہنمائیتھی جو امام کی عالمی سوچ کی غماصی کرتی ہے۔
الحمد للہ امام کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور مختصر مدت میں اس کا اثر پوری دنیا پر پڑھا اور اسکے اثرات دنیا پر نمایان ہوے۔ جن کو ہم اختصار کے ساتھذیل میں بیان کررہے ہیں۔
انقلاب اسلامی ایران کا عمومی اثر
1۔حکومتوں پر اسلامی انقلاب کا اثر
ایران میں حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی(ر ح) کی زیر قیادت اسلامی انقلاب برپاہونے کے بعد دنیا بھر کے دانشمندوں، سیاست دانوں اور اہل فکرحضرات کے ذہنوں میں ایک مشترک سوال تھا جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پوری مہذب دنیا کی فضا، عالمی نشریاتی اداروں،، ریڈیو، ٹی وی، تعلیمی اداروں اور ثقافتی مراکز میں اس سوال کو اٹھایا جارہا تھا کہ نو مولود شیعہ و اسلامی انقلاب جس کے قائد حضرت امام خمینی (ر ح) ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟
پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا؟
جس شاہی دور میں ان کو پوری آزادی حاصل تھی عیاشی اور آرام کرنے کے مکمل مواقع تھے۔ شراب کھلے عام پی سکتے تھے۔ کلبوں میں ننگے ناچ سکتے تھے وسائل کی فراوانی، موٹر کار، بنگلہ، کرنسی عام تھی۔ ان تمام تر آسائشوں کو چھوڑ کر ایرانی شیعہ مسلمانوں نے اللہ اکبر فقط قرآن و اسلام کی خاطر مصیبتوں اذیتوں اور قربانیوں کا راستہ کیوں اختیار کیا ؟ اس کا جواب خود امام خمینی نے دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:” پیامبران الہی اگر مبعوث بہ رسالت ہو?ہے تو اسکا مقصد معاشروں کی اصلاح تھی اور ان ظالم طاقتوں کے بنیادوں کو ہلانا تھا، جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور یقیناً ہم نے ہر ایک امت میں کوئی نہ کوئی رسول (یہ پیغام دے کر) ضرور بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو پس ان (امتوں) میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مستقر اور ثابت ہوگئی.
اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں دین اسلام بحیثیت طاقت کے طور پر کیسیابھرا ؟ جب امام خمینی (ر ح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو اقوام متحدہ کے اکثر رکن ممالک یہاں تک اسلامی حکومتوں نے بھی اس انقلاب کا استقبال نہیں کیا۔ بلکہ اکثر ممالک حیران اور پریشان اور سرگران تھے کیونکہ ایک ایسے واقعہ اور حادثہ کا رونما ہونا ان کے لئے بالکل قابل پیش بینی نہ تھا۔
دوسری طرف دنیا کے ساری حکومتیں مستقبل میں اپنے معاشرہ پر اس انقلاب کے اثرات سے خوفزدہ اور خائف تھی۔ ساری حکومتیں اپنے بقائمی کے لئے سوچ رہی تھی۔ اور کسی بھی ممکنہ عوامی تحریک سے خوفزدہ تھے۔ بلا ایسے انقلاب کا استقبال اور خیر مقدم نہ کرنا عادی سی بات تھی۔ خاص طور پرایسی حکومتیں جن کے سیاسی نظام سیکولر تھے جس کی ملکی اساس دین اور سیاست کی جدایی پر مبنی تھی۔ اسلیے اسلامی انقلاب خطرناک ہونا ایک مسلم بات تھی کیونکہ موجودہ حالات کو ختم کر کے ایک نیا سسٹم اور نیا افکار کو پیش کیا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک اور امریکہ اس انقلاب کیمقابلے میں سخت ترین دشمن بن کر سامنے آیاور اس نومولود انقلاب کے خاتمے کیلیے اپنی تمام وسایل کو بروکار لاے اس دشمنی اور کینہ کی دو بنیادی وجہ تھی۔
1۔کیونکہ شہنشاہی حکومت اور اسکا نظام کلی طور پر یورپ اور آمریکہ سے وابستہ تھا۔ لیکن انقلاب کے آنے کے بعد ان کے تمام مفادات خطرے میں پڑھ گئے۔
2۔ اصولی طور پر دینی اور مذہبی اعتقادات اور اصول پر مبنی انقلابات لیبرل اور سیکولر نظام کو چیلنج کرتے ہو?? ان کی آئیڈیالوجی اور مستقبل کو نابود کرتے ہیں۔
دوسری طرف ان حکومتوں کی ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک ہونے کو بھی نظر آنداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے الفاظ میں جو ممالک ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے نزدیک اور اس ملک کے ہمسا? تھے، وہاں انقلاب کے اثرات کو محسوس کیا جا رہا تھا اور عوام میں اس انقلاب کی مقبولیت اور نفوذ کا زیادہخطرہ تھا لہذا ان ممالک نے انقلاب کے ممکنہ اثرات کو روکنے کیلیے سخت اقدامات کیے۔ اسلامی حکومتوں کا رویہ بھی انقلاب کے ساتھ منفی تھا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، بلکہ مختلف حیلیو بہانوں سے انقلاب کو ناکام کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔