انوکھی عبادت
تحریر: نیک بانو (گلگت)
والد ين کی خدمت دين اسلام نے عبادت قرار ديا ہے ليکن ہم نے اپنے اپ کو اس حد تک ًمصروف رکھا ہے کہ وہ اج گھروں کی چو کھٹ پہ اس انتظار ميں ہیں کہ ان کی بچے کب دروازہ کٹھکھٹائے اور اواز ائے کہ ديکھو اممی ابو ہم اگئے۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان کی دعائیں لیتے ہیں۔اور خوش نصیب ہیں وہ جو اپنی دنیا کو جنت بنا دیتے ہیں۔یہاں والدین سے مراد وہ تمام بزرگ ہیں جو گھر میں بڑے ہیں۔وہ والد کی شکل میں،سسر کی شکل میں،ساس کی شکل میں یا تایا ابو کی شکل میں یا کوئی بھی ۔
خدا وند کریم نے اپنے بعد جس رشتے کو خاص اہمیت اور خدمت کرنے کا حکم دیا ہے وہ والد ین اور ان بزرگوں کی خدمت ہے۔ماں باپ کی اصل طاقت ان کی اپنی اولاد ہے-
ماں باپ کمزور ،بوڑھے اوربیمار تب ہوتے ہیں جب ان کو اپنی اولاد ہی ان کو پریشان رکھتی ہے۔یاد رکھیں کبھی کبھی مرنے کے لئے زہر کی ضرورت نہیں پڑتی حساس انسانوں کو تو روئیے ہی مار دیتے ہیں اور یہ موت بڑی اذیت ناک ہوتی ہے۔
میں اپنے ارد گرد کی معاشرے کا تجزیہ کروں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ بہت کم ایسے خوش نصیب افراد ہیں جو والدین کی خدمت کرتے ہیں۔ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور رب کی اس فرمان کو بھول جاتے ہیں جس میں ارشاد ہے ً کہ تم اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرواور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آوً۔
اکثر بزرگوں کی محفل میں بیٹھ کے ان کو سننے کا موقع ملا۔ان کے درد کو محسو س کیا اور من ہی من میں مجھے یہ احساس ہوا کہ کچھ تحریر میں لا ؤں۔کیونکہ یہ وہی قابل قدر والدین ہیں جنھوں نے ہمیں اس دنیا کے لوگوں کے ساتھ رہنے کے قابل بنایا۔بھوک پیاس کو مٹا کے ہمیں کھلایا۔
یقیناّ محترم والدین مجھے برا لگتا ہے جب آپ کہتے ہیں کہ اب ہماری اہمیت نہیںِ ،نہیں! آپ ہمیشہ سے ہمارے لئے خاص تھے اور خاص رہنگے۔
ہم کون ہوتے ہیں جو آپ کو اہمیت نہ دیں آپ کو تو پروردگار عالم نے خاص مقام دیا ہے۔اور امتحان میں ہم ہیں کہ اگر اس درجے کو وہی اہمیت نہ دیں جو پروردگار عالم سے توقع رکھتا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے آپ کو ڈھونڈتے رہیں اور وقت تھم جائے مجھے برا لگتا ہے جب کوئی آپ سے کہیں کہ آپ ان پڑھ ہیں نہیں آپ سے بڑ ھ کر کوئی پڑھا لکھا نہیں تجربہ زندگی کا آپ کے پاس ہے۔سمجھداری آپ کے پاس ہے آپ ہی نے ہمیں علم کی روشنی سے منور کیا۔تاکہ ہم دنیا میں دوسرے لوگوں کے ساتھ رہنے کے قابل ہوسکیں۔
مجھے برا لگتا ہے جب آپ سے کوئی یہ کہے کہ آپ صفائی کا خاص خیال نہیں رکھتے میں کبھی بھی نہیں مانونگی کہ آپ نے صفائی کا خیال نہیں رکھا۔کیونکہ جب آپ نے ہمیں کھلایا تو ہم میں سے کوئی بیمار نہیں تھا۔خالص غذا ہمیں کھلایا۔بیمار تو آج ہیں ہم۔
مجھے برا لگتا ہے جب آپ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کے سامنے بات کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارے بچے ہم سے ناراض نہ ہوجائیں محترم والدین جب کہ یہ ہمارا امتحان ہے اور ہماری بد قسمتی ہے کہ آپ کو ہم نے ڈرا کے رکھ دیا ہے –
مجھے برا لگتا ہے جب آپ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کے سامنے بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔کہ کہیں ہمارے بچے ہم سے ناراض نہ ھوجائیں محترم والدین جب کہ یہ ہمارا امتحان ہے اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ُٓ آپ کو ہم نے ڈرا کے رکھ دیا ہے آپ کو ٹائم نہیں دیا۔کہ آپ ہم سے کچھ اظہار خیال کر ہم نے آپ کو ڈرا کے رکھ دیا ہے۔
تو میرے عزیز بھائیو اور بہنو آئیں کچھ باتیں جو اس ناقص ذہن میں ہیں گوش گزار کروں تاکہ یہ عبادت ہاتھ سے نکل نہ جائیں یاد رکھیں۔ان کے ساتھ وقت گزارنا دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے والدین حساس عمر میں پہنچ جائیں تو کبھی بھی ان کے سامنے ان اخراجات کا ذکر نہ کریں جو گھر پر خرچ ہوئے ہیں پیسے کہاں سے آئے اور کہاں خرچ ہوئے۔کبھی بھی ان کا ذکر ان کے سامنے نہ کریں۔کیونکہ کبھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم کس طرح بڑے ہوئے۔
حساس عمر میں وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور گھر کے تمام افراد اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور ٹا ئم نہیں دے سکتے اس لئے پوتوں نواسوں کو ان کے ارد گرد بیٹھنے دینا چاہئے تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔اور اگر زیادہ فاصلے پہ ان کے بچے ہیں تو والدین کو نہیں بھولناچاہئیے فون نے فاصلہ مٹا دیا ہے صرف ٹائم دینا ان کو ہماری ذمہ داری ہے۔ بہت ساری ماوءں کو دیکھا ہے جو اپنے بچوں کے فون کا انتظار کرتے ہوے ان کی رات بیت جاتی ہے۔اور دن بھر دروازے کو تکتے رہتے ہیں کہ ان کا کوئی بچہ کہیں سے ان کے پاس آے اور ان کا حال پوچھے۔پھر انسو سے بے حال ان کا یہ دن بھی گزر جاتا ہے ان کو سننے کے لئے ٹائم نکالیں ہم اپنی دنیا میں مگن کبھی یہ نہیں پوچھتے کہ ان کو کوئی پریشانی تو نہیں۔ یہ کوئی باغبان کی کہانی نہیں انکھوں دیکھی صورت حال ہے بیماری میں بزرگ والدین کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔اور بزرگ ماں کو زمین کی طرح تقسیم کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔اور بیماری کی حالت میں ان کو بھوک کی وجہ سے روتے ہوے بھی دیکھا ہے۔
کھانا پیار سے ان کو دینا ہماری ذمہ داری ہے۔کبھی بھی انتظار نہ کریں کہ ان کو بھوک لگے گی تو ہم کھانا دینگے وقت پہ ان کو کھانا دینا چاہئے کیونکہ عموماً والدین بھوک کو ظاہر ہونے نہیں دیتے جبکہ ان کو ٹائم سے پہلے بھوک لگتی ہے۔
۔کبھی یہ انتظار نہ کرے کہ ان کی جوتے ،کپڑے پھٹ جائیں تو ہم ان کو بنا کے دینگے ٹائم سے پہلے ان چیزوں کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔۔
چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا خیال رکھیں مثلا۔ان کی انکھوں کا دھندلا ہونا۔کانوں کا کمزور ہونا۔یہ وہ کمزوریاں ہیں جو حساس عمر میں زیادہ ہوتی ہے اور معاشرے سے الگ کر دیتی ہے ان کا خیال رکھنا چاہیے ان کے سامنے بدتمیزی سے پیش نہ آئیں۔کیونکہ ان کی اداسی رب کی اداسی ہے اور اپنے رب کو اداس کر کے ہم کیسے خوش رہ سکتے ہیں۔ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا دونوں جہان کی سعادت ہے او ر جس سے اس کے والدین خوش نہیں اس سے اللہ بھی راضی اور خوش نہیں۔۔آپ کی یہ کوشش آپ کی یہ خدمت آپ کو کامیابی کی طرف گامزن کر سکتی ہے۔قرآن پاک میں بھی یہی ارشاد ہے کہ انسان کو واہی کچھ ملتا ہے جسکی وہ کوشش کرتا ہے۔۔ ّ
والدین ہماری بھلائی چاہتے ہیں اسلئے وہ ہمیں صحیح راستہ دکھاتے ہیں،اور ہمیں علم کی روشنی سے منور کرنا چاہتے ہیں ان کی ڈانٹ کو عبادت سمجھنا چاہئیے ان کی ہدایت کو سر آنکھوں پہ رکھنا چاہئیے نہ کہ ان کو دھمکی دینی چاہئیے کہ آپ نے مجھے ڈانٹا میں زندگی کا خاتمہ کرونگاوالدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں اللہ رب العزت ہمارے والدین کی عمر اورصحت میں برکت اور ان کی خدمت کی ذریعے اپنی خوشنودی کی توفیق دیں۔