کالمز

قانون کے مطابق غیر قانونی تقرریاں

تحریر : ایڈوکیٹ حیدر سلطان

عارضی ملازمین کو ریگولر کرنا جہاں پہ ایک احسن اقدام ہے وہی پہ یہ ان بے روزگار نوجوانوں کے حوصلوں پہ ایک زور دار تمانچہ بھی ہے جو دن رات ایک سرکاری نوکری کی تلاش میں ٹیسٹ انٹرویویز کی تیاری میں لگے رہتے ہیں ۔ سیاسی قیادت ہمیشہ سے ایسے اقدامات کا کریڈٹ لیتی رہی ہے مگر ان اقدامات کے منفی اثرات پہ کسی نے توجہ نہیں دی ۔ کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرتے وقت گزشتہ دور حکومت میں بھی یہ نعرہ مارکیٹ میں کیش کرایا گیا کہ سیاسی پارٹی کو نوجوان نسل کو درپیش مشکلات کا پورا پورا احساس ہے اور روزگار کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ تو کیا یہی ایک طریقہ بچا ہے روزگار دینے کا ؟ ان دنوں ن لیگ کی حکومت بھی ایک بل اسمبلی سے پاس کروارہٕی یے جس کے بعد وہ تمام کنٹریکٹ ملازمین جن کی تقری چاہے سیاسی , مذہبی , ذات پات , رنگ و نسل یا لکشمی کی بنیاد پہ ہوئی ہو ریگولر ہوجاینگے اور اصل حقدار اسمبلی کا منہ تکتے رہ جاینگے ۔

جس طرح بلیک منی کو وایٹ کرنے کیلے بڑے بڑے مگرمچھ لکی ڈراز اور دیگر جائز سہولیات کا ناجائز فاٸدہ اٹھاتے ہیں ویسے ہی ہماری گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی بھی اس طرح کی قانون سازی کرکے غیر قانونی تقرریوں کو قانی شکل دینے کے درپے یے ۔ بل پاس کرنے کے کچھ ایسے وجوہات بتاے جاتے ہیں کہ مجھ جیسا سادہ لوح انسان ان کی غریب دوست پالیسیز پہ عش عش کرے مگر جب غور کیا جاٸے تو معلوم ہوتا ہے کہ عارضی طور پہ کی جانے والی ان تقرریوں کے پیچھے نوے فیصد انہی کے لوگ بیٹھے ہوے ہیں جو چور دروازوں سے بھرتی ہوکر آئے ہیں۔

بتإیا جاتا ہے کہ ان عارضی ملازمین میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کٸی برس ١٠ سے بیس ہزار کی قلیل تنخواہ پہ نوکری کی ہے اور حکومت ایسے ملازمین کو ریگولر کرکے ان کی خدمات کا ازالہ کرنا چاہتی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو شرطیہ طور پہ ایک سروے کرایا جاٸے تو لگ پتہ جاٸے گا کہ گلگت بلتستان کا ہر پڑھا لکھا نوجوان جو یونیورسٹیز سے لی ہوٸی (معزرت کےساتھ ) بے روزگاری کی ڈگری ہاتھ میں لیکر روز روز سرکاری دفاتر کے چکر لگاتا ہے وہ دس سے بیس ہزار سے بھی کم تنخواہ پہ بھی نوکری کرکے اس کٹھ پتلی حکومت پہ احسان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے مگر ان کا احسان کوئی لینے کو اس لٸے تیار نہیں کہ ان کے پیچھے نہ کوٸی سیاسی دیوتا ہے، نہ مذہبی، اور نہ ہی ان نکمے بے روزگاروں کے پاس لکشمی کی چمک ہے ۔ اگر کچھ ہے ان کے پاس تو محض تعلیمی اسناد اور مایوس اور بے بس چہرے ہیں ۔

ایسے میں جب یہ پڑھے لکھے نوجوان دیکھتے ہیں کہ چور دروازوں سے منظور نظر لوگوں کو کانٹریکٹ اور کانٹیجنٹ کے نام پہ نوکریاں دی جاتی ہیں اور بعد ازاں ان چور دروازوں سے آنے والوں کا احسان چکانے کیلےانہیں ریگولر بھی کیا جاتا ہے تو یہ نوجوان مایوسی کا راستہ اپناتے ہیں اور یوں معاشرہ عدم برداشت ،چوری ڈکیتی اور نقص امن کے مساٸل سے دو چار ہوتا ہے جسکی تمام تر زمہ داری ایسی کٹ پتلی سیاسی قیادت پہ آجاتی ہے جو بجاٸے ٹیسٹ انٹر ویو لیکر قابل نوجوانوں کو ان کا حق دینے کے مختلف ہیلے بہانوں کے زریعے اپنے منظور نظر لوگوں کو نوازتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button