کالمز

بچوں کو خوف و ہراس سے باہر نکالیں

نیک بانو، گلگت 
بچوں کو ہم جس رنگ میں رنگتے ہیں اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔بچوں کو پیار دینگے بچہ پیار دینا سیکھ لے گا اگر اسے خوف اور ڈراونا ماحول دینگے تو اس کی تمام اچھی صلاحییتں دب جائینگے اور معاشرے کے تمام لوگوں سے وہ الگ رہنا پسند کرے گا۔
اکثر والدین کو میں نے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے دیکھا ہے۔خاص کر مائیں جو بچوں کے ناراض ہونے پہ بھی اور شرارت کو پکڑ کر بھی دھمکی دیتی ہے کہ اگر آپ اس شرارت سے بعض نہیں آئے تو آپ کے ابو سے شکایت کرونگی۔اگر آپ نے ھوم ورک نہیں کیا تو میں آپ کے والد کو بتاونگی۔اگر کھانا نہیں کھایا تو آپ کے آبو آپ کی پٹائی کرینگے،اپ کے ابا ڈنڈا لیکے آرہے ہیں،وغیرہ،بچے معصومانہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ کیا آبو ہمیں مارینگے کیا وہ ہمیں گھر سے نکالیں گے-

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماں نے بچوں کو ان کے والد سے اتنا دور کر کے رکھ دیا کہ وہ اپنے والد کو ایک بھوت کی طرح سمجھنے لگا ہے۔وہ اس ڈر کے ساتھ ہے کہ ان کے والد آئینگے اور انھیں مارینگے یا کچھ اور سزا دینگے۔اور نہ جانے کیا کیا سوچ رہا ہوتا ہے۔

ماؤں سے گزارش ہے کہ بچوں کو کبھی بھی ان کے والد سے خوفزدہ نہ کریں۔کیونکہ وہ اپنے ایک خاص دوست سے دور چلے جاتے ہیں۔اور بچوں کی تربیت میں یہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔بچوں کو دوستانہ ما حول سے نوازیں نہ کہ ڈراونا ماحول دیں۔

بچے دوستانہ ماحول میں اپنے جذبات کا کھل کے اظہار کرتے ہیں۔اور اپنے والد کو ہی ایک بہترین خیر خواہ ،دوست اور مدد گار سمجھتے ہیں۔اس لئے ان کے والد کو ایک جلاد کی شکل نہ دیں۔

خوف ہماری صلاحیتوں کا قاتل ہے۔اور یہی خوف زندگی بھر ان کی تربیت کا حصہ بن جاتا ہے۔اسی خوف کی وجہ سے وہ کسی کے سامنے کھل کے بات نہیں کر سکتے ۔اپنوں سے دور رہتے ہیں۔اسی خوف میں پل کے جب وہ بڑے ہوتے ہیں۔تو افس کے ماحول میں اپنے آفیسر کے سامنے اظہار خیال نہیں کرسکتے۔استاد کے سامنے بول نہیں سکتے۔زندگی کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں وہ حصہ نہیں لے سکتے۔

میری آپ سے گزارش ہے کہ بچوں کو زندگی کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں ان کو شامل کریں۔گھر کے فیصلوں میں ان سے رائے لے لیں۔ایسا نہ کرنے کی وجہ سے وہ معمولی فیصلہ لینے سے گھبرا جاتے ہیں۔ان کو ان کے سوالوں کا جوب دے دیں-

سوال کرنے سے نہ روکیں۔سوال کریں ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔روکنے پہ وہ عمر بھر سوال نہیں کر پاتے۔خوف سے اس کی شخصیت دب جاتی ہے اسے مت ڈانٹے۔بچوں میں موازنہ نہ کریں ۔کہ وہ آپ سے اچھا ہے۔اسے اچھے روئے دو ،اسے کسی بھی بات پہ خوف نہ دو۔بلند آواز سے مت بلائیں۔ کھيل کود میں اس کا ساتھ دیں۔کھلینے سے مت روکیں۔

بدقسمتی یہی ہے کہ ہمارے معاشرے نے ہمیں صرف ڈر دیا ہے اور ڈراونا ماحول دیا ہے۔حوصلہ چھین لیا ہے۔کیونکہ جہاں نقصان بھی ہوا تو بچوں کو ڈانٹاکہ آپکی وجہ سے یہ ہوا گھر میں لڑائی ہوئی بچے کی شامت آئی۔والدین آپس میں لڑ پڑے بچے پہ غصہ اتار دیا۔باہر نکل کے کھیلا ہمسایوں نے ڈانٹا۔ہوم ورک نہیں کیا استاد نے ڈرایا کہ فیل ھو جاو گے۔گویا معاشرے کے ہر فرد نے اس معوم سی جان کو اتنا ڈرایا ہے کہ اکثر بچے اسی وجہ سے معاشرے سے الگ رہہنے لگتے ہیں۔بچے کو جس رنگ میں اپ رنگ دینگے وہ وہی بنے گا۔

مجھے کسی کا لکھا ہوا یہ معقولہ اچھا لگا اپ سے بھی شیر کرنا چاہونگی۔کہ اچھے کھانا پکا لینا کوئی کمال نہیں صنف نازک کی اصل معراج اولاد،قوم اور نسلوں کی تربیت ہے-

میری گزارش ہے کہ بچے کو اس ڈر سے نکالیں اور اس کے لئے ایک علمی اور روحانی ماحول کے ساتھ پیار اور دوستی کا ماحول مہیا کریں گھریلو جھگڑوں سے اسے دور رکھیں،محبت سے نوازے۔۔ یہی بچہ اس معاشرے سے محبت کرے گا،آپ سے محبت کرے گا۔اور یقنا آگے جاکے ایک بہترین انسان بنے گا،اور ملک و قوم اور والدین کے لئے فخر کا باعث بنے گا-

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button