ماہ صیام مبارک

ماہِ صیام اپنی عظمت، تقدس اور روحانی برکت کے لحاظ سے تمام اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ مقدس ہے۔ اس مبارک مہینے کی فضیلت کو مکمل طور پر بیان کرنا ایک مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ تاہم، میں اس کے مذہبی پہلو اور ہمارے لیے اس کے اہم پیغامات پر چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔
ماہ صیام تمام اسلامی مہینوں میں سب سے بابرکت اور مقدس مہینہ ہے۔ اس کی عظمت کے بارے میں خداوند کریم اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں: "شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُن ِزلَ فِیہِ الْقُرْاٰنُ” یعنی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ "هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ” یعنی جس میں لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے اور اس میں ہدایت کے حق و باطل میں تمیز کی نشانیاں ہیں۔ اس آیت میں رب کریم ماہ صیام کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خدا نے اپنے محبوب پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پاک نازل کرنا شروع کیا۔ اس میں بنی نوع انسان کے لیے ہدایت اور رہنمائی موجود ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس میں حق و باطل کے درمیان فرق کی نشانیاں بھی موجود ہیں۔
ماہ صیام سب سے مقدس اور بابرکت ہونے کے ناطے ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس مہینے کو سال کے باقی مہینوں کے لیے ایک مثال اور تربیت کے مہینے کے طور پر گزاریں اور یہ تربیت نہ صرف اسی مہینے تک محدود رکھیں بلکہ سال کے باقی مہینوں میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ اس نکتے کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے بہت سے ممالک میں سال میں ایک بار ہفتہ برائے صفائی منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ صرف اسی ہفتے صفائی پر زور دیا جائے اور سال کے باقی تمام ہفتوں میں صفائی کا خیال نہ رکھا جائے بلکہ اس کا مقصد لوگوں میں صفائی کا شعور بیدار کرنا ہوتا ہے اور انہیں یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ایک تندرست اور توانا زندگی کے لیے سال بھر صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح رمضان کا مہینہ بھی ہمیں سال کے باقی مہینوں کے لیے ایک مثال اور پیغام دیتا ہے کہ کس طرح ہمیں اپنی زندگی کو اسلامی اخلاقی اصولوں کے مطابق گزارنا چاہیے۔ اس مہینے میں خدا نے اپنے بندوں کے لیے کچھ اصول اور عبادات مقرر کیے ہیں، جن میں سے ایک روزہ ہے۔ جس کے بارے میں خدا اپنی کلام پاک کے سورۃ البقرہ آیت نمبر 183 میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: "یٰۤاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا كُتِبَ عَلَیكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ” یعنی اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہیں پرہیزگاری حاصل ہو۔
صیام، صوم کی جمع ہے جس کے معنی اپنے آپ کو روکنے کے ہیں تاکہ اس کے بدلے ہم متقی اور پرہیزگار بن جائیں۔ ہم متقی اور پرہیزگار کیسے بن سکتے ہیں؟ جب ہم صرف اور صرف خدا کی خوشنودی اور رضا کے لیے اپنی خواہشات، چاہتوں اور رغبات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، اپنے آپ پر ڈسپلن نافذ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو بےلگام نہیں چھوڑتے تب ہم متقی اور پرہیزگار بن جاتے ہیں۔ جیسے ہم جھاڑیوں سے گزرتے وقت اپنے جسم اور کپڑوں کو ان سے بچا کر گزرتے ہیں بالکل اسی طرح گناہوں اور برے کاموں سے اپنے آپ کو بچا کر زندگی گزارنے کا نام ہی تقویٰ ہے۔
یہاں ایک بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ روزہ رکھنا بذات خود کسی مقصد کے حصول کی ضمانت نہیں بلکہ کئی اہم مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ مقاصد تقویٰ و پرہیزگاری، صبر و برداشت، بھوک اور پیاس کا احساس، اور معاشرے میں موجود غریبوں اور کمزوروں کی مدد کرنا ہیں۔ اسی لیے خدا نے یہ رعایت دی ہے کہ اگر کسی میں روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں تو وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ خدا فرماتے ہیں: "وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ” یعنی اور جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ اگر ہم روزہ رکھنے کے باوجود ان مقاصد کو حاصل نہیں کرتے، برے کاموں سے دور نہیں ہوتے، کسی کی حق تلفی کرتے ہیں، حرام اور دوسروں کا مال کھاتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر دین اسلام کے اخلاقی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں ناکام رہتے ہیں تو ایسے روزہ داروں کے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بہت سے روزہ داروں کو ان کے روزے کے بدلے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام دراصل اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر زندگی بسر کرنے کا نام ہے اور یہ صرف کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں، چاہے وہ تجارت ہو یا سیاست، نوکری ہو یا مزدوری، گھر ہو یا باہر، ہر جگہ ان اصولوں کو اپنانا ضروری ہے۔ روزہ ہمیں اس تربیت کے حصول کا موقع فراہم کرتا ہے۔
انسان کے تعلقات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو خدا سے متعلق ہیں اور دوسرا وہ جو بندوں سے متعلق ہیں۔ خدا غفور و رحیم ہے۔ وہ اپنے حقوق سے متعلق کوئی بھی گناہ اور خطا ہماری عبادات جیسے کہ نماز اور روزے کے بدلے معاف کرسکتا ہے لیکن بندوں کے حقوق سے متعلق کسی بھی گناہ کو تب تک معاف نہیں کرتا جب تک بندہ خود معاف نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری عبادات کے باوجود اگر ہم کسی کے ساتھ ناانصافی، دھوکہ دہی یا زیادتی کرتے ہیں تو وہ معاف نہیں ہوگی جب تک کہ ہم خود اس سے معافی نہ مانگ لیں۔ مولانا رومی دیوان شمس میں کیا خوب فرماتے ہیں:
ہزار بار پیادہ طواف کعبہ کنی
قبول حق نشود گر دلی بیازاری
یعنی اگر آپ نے ہزار بار پیدل چل کر بھی کعبے کا طواف کیا ہو، وہ اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک آپ نے کسی کا ناحق دل دکھایا ہو۔
دین اسلام میں جتنی بھی عبادات ہیں وہ بندے کے اپنے رب سے تعلق، اطاعت اور پرستش کا علامتی اظہار ہیں اور ان کے بے شمار مقاصد ہیں۔ ان مقاصد میں سب سے اہم ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں لوگ خوشی، امن، سکون اور محبت کے ساتھ رہ سکیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے معاشرے کے قیام کے لیے اپنی کوشش کریں جہاں افراد کی روحانی، سماجی، اخلاقی، عقلی اور معاشی ترقی ممکن بنائی جاسکے۔
تو آئیے، اس مبارک مہینے میں ہم سب عہد کریں کہ اپنی بساط کے مطابق اس دنیا اور اس میں بسنے والی تمام مخلوقات کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔ آئیے جہالت کے اندھیروں کو مٹا کر علم و حکمت پھیلانے والوں کا ساتھ دیں اور اسلامی اخلاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کریں، نہ کہ دشواریاں۔