مشترکہ کھیل
بکھری سوچوں کے ہجوم اور سیاسی عجوبوں کے دیس میں قومی رائے بنتے بنتے وقت تو لگتا ہے،
تاریخ سے جو سبق نہیں سیکھتے انہیں تاریخ سبق سکھاتی ہے ،ہم نے ستر برسوں کی کہانی سے نہ تو نتیجہ اخذ کیا اور نہ ہی ایک رہنما پا سکے جو قوم کی ناو کو سیاسی جدو جہد سے پار لگاتا،ہماری صفوں میں جورہنما پیدا ہوئے انہیں کھبی مسلک تو کھبی علااقائی دائروں میں قید کر کے اپنے اپنے راگ الاپتے رہے۔ ان راگوں کی لے تو پھر عزیز میاں کی قوالی کی صورت میں نکلنی تھی ،جس طرح کی۔ لے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے نکلی ،۔۔۔لیڈر اور رہنما کو دائروں میں قید کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اجتماعی اور قومی شعور پر مسلکی ٹھکیداروں نے اپنے پھن پھیلا دئیے اور شعور کی تمام کھڑکیاں بند ہوتیں گئیں۔یہ ایک دن کی کہانی نہیں ستر برسوں کی کمائی ہے۔جس کا پھل سپریم کورٹ کے فیصلے کی صورت میں مل گیا کہ سیاسی جدو جہد کے تمام راستے بند ہو گئے ،کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے ،یہ سیاسی جدو جہد تھی اس میں عدالتوں کا کیا کام ،دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ سیاسی جدو جہد کے نتیجے کے لئے عدالتوں کی چھوکٹ پر کھڑے ہو کر حقوق کا انتظار کیا جائے،،،عدالتوں سے توانگیریزی کے صرف دو لفظ بر آمد ہوتے ہیں yesاورno،،،
قوموں کی زندگی ان دو الفاظ سے بہت وسیع ہوتی ہے ،خیر اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے اس پر مزید قوالیاں وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ،ہاں اتنا ضرور ہے کہ جب تک ان محرکات کا ادراک نہ ہو جن کی بدولت ہم کنارے سے آشنا ہوتے ہوتے اچانک بے رحم موجوں کے رحم و کرم پر رہ گئے تو مستقبل کے راستوں کا تعین نہیں کر سکتے ۔ان کرداروں کے کردار کو طشت بہ ازبام بھی کرنا ضروری ہوگا جن کی بدولت ،بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے،والی صورت حال ہو گئی ،
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اس فیصلے میں دوش نہ ہم سپریم کورٹ کو دے سکتے ہیں نہ ریاست کو جو لوگ سپریم کورٹ اور ریاست کو بدنام کر رہے ہیں وہ دراصل اپنے جرائم پر پردہ ڈال رہے ہیں انہیں کس نے کہا تھا کہ سیاسی فیصلے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کریں سپریم کورٹ نے تو آئین اور قانون کی رو سے فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو اس نے کیا، اب ماتم کرنا ہے تو ان کرداروں پر ماتم کریں جن کی سیاسی ناپختگی نے گلگت بلتستان کو ایک دفعہ پھر سے اسی موڑ پر لاکھڑا کیا جس سے آگے مایوسی کی وادیاں ہیں ۔گلگت بلتستان حکومت کے ذمہ داران نے بارہاان سے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نہ جائیں لیکن سب سیاسی یتیم جو آج فیصلے کے بعد آگ بگولہ ہیں نے مل کر یہ کھیل کھیلا جن میں پیپلز پارٹی بھی ہے تحریک انصاف بھی ہے ،اب یہی لوگ ماتم بھی کر رہے ہیں ،،،خیرمایوسی کفر ہے ہمیں بس ایک کام کرنا ہے وہ ہے سیاسی شاہ دولوں سے نجات،قومی اور اجتماعی سوچ کا شعور ،تعصبات سے دوری،
جلیں گے کتنے چراغ تم سے، چراغ اک تم جلا کے دیکھو
نئی سحر کا پتہ ملے گا، پرانے چہرے ہٹا کے دیکھو
فضا میں نغموں کی گونج ہو گی، تمام خاکوں میں رنگ ہوگا
کِھلیں گے تازہ گلاب پھر سے، چمن سے ظلمت مٹا کے دیکھو
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اخبارات کاملاحظہ کیا تو ان سیاسی منافقین اور شاہ دولوں کے بیانات میں بھی آگ برس رہی تھی جو کل تک بار کونسل والوں کو حکومت وقت کے بغض میں ہلہ شیری دے رہے تھے ،یہی وہ کردار تھے جن کی منافقت کی بدولت چمن لٹ گیا ،یہ اگر قومی مفاد اور مستقبل کا سوچ کر بار کونسل کو سپریم کورٹ میں جانے کی بونگی مارنے سے منع کرتے تو آج صورت حال یہ نہیں ہوتی ،بار کونسل کو کمک فراہم کر کے قوم کی ناو ڈبونے والے آج قوم کے ہمدرد بن کر اپنے قد سے بھی بڑے بیانات دے کر قوم کو بے قوف بنانے کی تگ و دو میں ہیں ایسے میں مجھے محاورہ یاد آرہا ہے کہِ ،،،بات لاکھ کی،کرنی خاک کی،،،آو ہم سب ملکر ماتم کریں ،پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور بار کونسل کے مشترکہ کھیل پر ،کھل کر ماتم کریں ۔۔خیر۔۔۔۔قارئین میں مایوس نہیں اس لئے کہ ہر شب کے بعد سحر ہے،،،،،خیر جاتے جاتے ۔انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظم سے چند اشعار قارئین کی بصارتوں کی نظر ہیں
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچ کچھ سحر کے رنگ پرافشاں ہوئے تو ہیں
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
ہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لٹا کے ہم
اب بے نیاز گردش دوراں ہوئے تو ہیں