نمازیں بخشوائے گئے،روزے گلے پڑ گئے
فرانس کے عظیم فلسفی ژاں پال سارتر نے بڑی اچھی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں
"لفظ جمہوریت کے ایک معنی ہیں جو فرسودہ ہوچکے ہیں لغوی معنوں میں اس کا مطلب ہے عوام کے ذریعے حکومت۔جن کے ذریعے حکمرانی کی جائے۔کیونکہ عوام باقی نہیں رہے عوام ہوا کرتے تھے۔آج کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جسے عوام کہہ سکیں کیونکہ اب لوگ جس طرح رہتے ہیں ان کی امتیازی خصوصیت محنت کی تقسیم ہے انسانی ہستیوں کے درمیان اگر تعلق ہے تو صرف کام کے ذریعے ہی۔اور یہ تعلق اتنا ہے کہ ہر ایک پانچ چھ یا سات برسوں بعد وہ ایک خصوصی عمل سر انجام دیتے ہیںیعنی ایک کاغذ کا پرزہ لیتے ہیں اور اسے ایک بکس میں ڈال دیتے ہیں میں اسے کوئی چیز نہیں سمجھتا جسے عوام کا اقتدار کہا جاسکے”
(سارتر کے مضامین،ص ۷۱)
دنیا کے کسی بھی فلاحی ریاست میں عوام اور ریاست کے مابین ایک عمرانی معاہدہ تشکیل پاتا ہے جس میں افراد اپنے اختیارات سے دستبردار ہوکر اجتماعی حکومت کو قبول کرتے ہیں اور حکومت اس کے بدلے عوام کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔عمرانی معاہدہ کا استعارہ ان تمام سماجی قوانین،ضابطوں،پابندیوں اور اخلاقیات کے لئے مجموعی حوالوں سے استعمال کیا جاتا ہے ۔سب سے پہلے یہ نکتہ غور طلب ہے کہ کیا پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے اور کیا ریاست کا عوام کے ساتھ عمرانی معاہدہ کا رشتہ مضبوط ہے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم موجودہ دور میں بھی ایک فلاحی ریاست میں وضع کیے جانے والے عمرانی معاہدہ کے ثمرات سے محروم ہیں۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے گلگت بلتستان کی آئینی شناخت سے متعلق فیصلے کے بعد عوامی حلقوں میں ایک نئی بحث چھِڑی ہے ۔فیصلے کے مطابق گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی البتہ وفاق کو بنیادی حقوق دینے کا پابند کیا گیا ہے اور گلگت بلتستان کا کوئی بھی قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتا ہے جبکہ اپیلٹ کورٹ کا اختیار صرف جی بی تک محدود رکھا گیا ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو ایک لمحے کے لئے سامنے رکھ کرغور کیا جائے تو ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر صوبو ں کے عوام کیا گلگت بلتستان کی نسبت بہتر معیارِ زندگی کے حامل ہیں۔۔۔۔۔؟اور کیا دیگر صوبوں کے چند اضافی مراعات کا عام عوام کی زندگی پر براہ راست کوئی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔؟تو اس کا بالکل سادہ سا جواب ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر گلگت بلتستان کے عوام ہی کی طرح کسی بھی فلاحی ریاست میں وضع کیے جانے والے عمرانی معاہدے کے ثمرات سے محروم ہیں تو گلگت بلتستان کے عوام آخر کس منطق کے تحت صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔؟کیا جی بی کے صوبہ بننے کے بعد گلگت کی دونوں تاریخی نہروں سے دودھ کی نہریں بہے گی۔۔۔۔؟کیا صوبہ بننے کے بعد کرپشن اور بیڈ گورننس کا خاتمہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔؟کیا سرکاری سکولوں کی حالتِ زار اور ناقص معیار تعلیم میں کوئی بہتری آئے گی۔۔۔؟کیا جی بی میں میرٹ کی بالا دستی کو یقینی بنا کربے روزگار افراد کو با عزت روزگار فراہم کیا جائیگا۔۔۔۔۔؟کیا ہسپتالوں کی حالتِ زار بہتر ہوکر غریب عوام کو مفت علاج کی بہتر سہولت میسر آئے گی۔۔۔۔۔؟ اور کیا لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوکرشہر رات گئے تک روشنیوں سے جگمگاتا رہے گا۔۔۔۔؟یقیناًان سوالات کے جوابات نفی میں ہونگے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کی صورتحال ہمارے سامنے ہے بلوچستان کے عوام کچے گھروں اور کیچڑ سے بھری نالیوں والی گلیوں میں زندگی بسر ر ہے ہیں۔سلیمانی قہوہ کے ساتھ سادہ روٹی کھا کر گزارا کرتے ہیں ژچگی گھروں میں ہوتی ہے کوئی بیمار پڑ جائے تو ڈاکٹر اور ہسپتال موجود نہیں اور اگر کچھ موجود ہیں توبھی قصبوں سے میلوں دور شہروں میں ہیں۔روزگار،زراعت،فیکٹریاں ،پینے کا صاف پانی اور گیس کی سہولت ناپید ہے حالانکہ ملک بھر کو گیس کی ترسیل اسی صوبے سے ہوتی ہے جبکہ ستم کہ بالائے ستم یہ ہے کہ حقوق مانگنے والے بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے برآمد ہوتی ہیںیا انکے نام مسنگ پرسنزکی فہرست میں شامل ہوجاتے ہے۔اس طرح سندھ کی حالت بھی قابلِ رحم ہے اور صوبے کے عوام صحت کے حوالے سے سخت مسائل کا شکار ہیں۔جوہڑوں،تالابوں اور کنوؤں سے گدلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔غذائی قلت اور سو کھے کی بیماری کے باعث بچے ایڑیاں رگڑ کر مر رہے ہیں جبکہ زندہ بچوں کی حالت دیکھ کر افریقہ کے کسی پسماندہ علاقے کا گماں ہوتا ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کے ہسپتالوں کی حالت بھی انتہائی خراب ہے اور اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی کرپشن اور بیڈ گورننس کے باعث عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں۔2016میں راقم کی ملاقات پاکستان میں کام کرنے والی ایک فرانسیسی ادارےFRIEDRICH EBERT STIFTUGکے ایک عہدیدار سے ہوئی انکا کہنا تھا کہ ان کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر کے عوام ریاست سے سخت نالاں ہیں لیکن گلگت بلتستان کے عوام کا بار بار صوبے کا مطالبہ ان کے لئے بھی حیران کن تھا۔
گزشتہ بالا سطور میں کی گئی بحث کی اہمیت اپنی جگہ۔لیکن پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت گلگت بلتستان کے عوام کہیں زیادہ محرومیوں کا شکار ہیں اور یہاں کے عوام 72سالوں سے اپنی شناخت سے محروم ہیں ہمارے علاقے کی مثال اس لاوارث بچے کی سی ہے جس کو کسی فلاحی ادارے نے گود تو لیا پر ہوش سنبھالنے کے بعدوہ اپنے والدین کی تلاش میں سر گرداں ہے۔سی پیک میں جی بی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کے ثمرات سے علاقہ محروم ہے اورپاک چائینہ تجارت کی مد میں ریاست کروڑوں ڈالر ٹیکس وصول کرتی ہے۔سیاحت اور کوہ پیمائی کی مد میں غیر ملکیوں سے لاکھوں ڈالر وصول کیے جاتے ہیں۔معدنیات کے لیز کروڑوں روپے لے کر دیے جاتے ہیں لیکن جب بھی علاقے کی شناخت کی بات آئے تو لاوارث بچے کو اپنی حیثیت یاد دلا کر ٹر خایا جاتا ہے جبکہ المیہ یہ ہے کہ اس قوم میں فکری بالیدگی کا سرے سے فقدان ہے ۔ آج ایک لمحے کے لئے فرض کیا جائے کہ جی بی کو ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں فہم و فراست اور اور مدبرانہ اوصاف کی حامل لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔ہمارے موجودہ سیاستدانوں کی حالت سب کے سامنے ہے ایک نیوز چینل کے اینکر کے سامنے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں تو ان سے بھلا کیسے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ وہ کسی بین الاقوامی فورم میں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر حقیقی معنوں میں عوام کی ترجمانی کر سکیں اور اگر کہیں سے چند اچھے اور علاقے کے لئے درد رکھنے والے سیاستدان سامنے بھی آئے تو علاقے میں مسلکی اور علاقائی تعصبات کھل کر سامنے آجائینگے کیونکہ ہماری طائرِ فکر کی اڑان نہایت سطحی ہے ۔ایک لمحے سوچا جائے کہ برطانوی عہدمیں ایسی کونسی جادوئی چھڑی تھی جس کے بل بوتے برما سے لے کر خیبر تک انکی حکمرانی قائم تھی تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ انگریز حکمرانوں کی حیثیت رعایا کی نظر میں مسلکی اورعلاقائی بنیادوں پر مشکوک نہیں تھی برطانوی سامراج کسی بھی نئے حکمران کو چن کر یہاں بھیجتی تو رعایا خدا کی طرف سے بھیجے گئے کسی مقرب فرشتے کی طرح اس کی اطاعت کو بلا چوں چراں قبول کرتی لیکن آج یہ عالم ہے کہ ہر حکمراں کی حیثیت عوام کی نظر میں مشکوک ہے کہ کہیں وہ مسلکی ،علاقائی یا لسانی بنیادوں پر ان کااستحصال نہ کر دے ۔اسی طرح آج جی بی میں ایک مسلک کو صوبہ بننے کے صورت میں نظر انداز ہونے کا خوف لاحق ہے تو دوسرے کوآزاد کشمیر طرز حکومت ملنے کی صورت میں استحصال کا شکار ہونے کے خدشات ہیں اس کے علاوہ جی بی پر کام کرنے والی ایک خاتون سکالر نے اپنے مقالے میں اس بات کا بھی دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں جی بی کو صوبہ بنانے کی صورت میں ایک مسلک کے مضبو ط ہوجانے کے حوالے سے بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔اسی طرح اگر فرض کر یں کہ گلگت بلتستان صوبہ بن جائے (جو نہیں بن سکتا )تو اس کاعام عوام کوآخر کیا ثمرات حاصل ہونگے کیونکہ 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ملنے والی پیکیج کے بعد کچھ لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے جیسے علاقے میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہو اسی طرح 2018کے بعد2019کے فیصلہ بھی عوام کے لئے کسی بڑی خوشی کامژدہ ثابت نہیں ہوگا۔آزادی سے اب تک ان 72سالوں میں پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح جی بی کے عوام کی معیارِ زندگی میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی البتہ کچھ خاندان سیاست کی بھول بھلیوں سے ضرور مستفید ہوئے بقول کارل مارکس "سماج کے ایک حصے پر اگر دولت اور تعیش کا ارتکاز بڑھ رہا ہو تو اس کا واضح مطلب ہے کہ دوسرے حصے پر محرومی اور ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے”
پاکستان میں جب تک ریاست اور عوام کے مابین عمرانی معاہدہ کا رشتہ استوار اور مضبوط نہیں ہوگا دیگر صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے عوام کی معیارِزندگی میں کوئی واضح تبدیلی آنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام کو سب سے پہلے متحد ہوکر ایک قوم بننے کی ضرورت ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم تمام مسلکی اور علاقائی اور لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر فکری بالیدگی کا مظاہرہ کریں لیکن میرے خیال میں اس ارتقاء کا سفر شاید کئی دہائیوں پر محیط ہوگاکیونکہ کوئی بھی تبدیلی پروپیگنڈا ،نعروں،جلسہ جلوسوںیا سوشل میڈیا پر دانشوری کی سر توڑ کوشسوں سے نہیں آتی بلکہ انفرادی طور پر اپنے اذہان کو تعصبات سے پا ک کرنے سے آتی ہے۔گلگت بلتستان میں جب تک پاکستانی سیاسی پارٹیاں اور مذہبی جماعتیں عوام کو سبز باغ دکھا کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی رہیں گی تب تک کسی بھی تبدیلی کی امیدیں وابستہ کرنا احمقوں کی جنت کے خواب دیکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اس کے علاوہ مستقبل میں جب تک جی بی کے عوام وفاقی سیاسی پارٹیوں کے زیرِ سایہ رہ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے رہیں گے تو نمازیں بخشوائے گئے تھے ،روزے گلے پڑ گئے کے مصداق نہ صرف اپنی شناخت سے محروم رہیں گے بلکہ مسائل کا دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔