کالمز

منزل کاحصول یقینی بنائیں

کہانیاں اور افسانے   بڑے مزے دار  اور طویل  ہوتے ہیں  ۔کہانی کو طول اور افسانے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے  لکھنے والے دور کی کوڑیاں بھی لاتے ہیں۔میرا نہ دور کی کوڑیاں لانے کا ارادہ ہے اور نہ ہی لیلیٰ مجنون کا قصہ سنانے کا   شوق ہے۔شینا کا ایک محاورہ ہے  "پھری ل زبر لا   ”  یہ محاورہ  اس وقت بولا جاتا ہے  جب  کسی کو بار بار سمجھانے کے بعد بھی  وہ اس کام  کو   صحیح نہ کرے یا اسے غلط کہئے ۔ گلگت بلتستان کے باسیوں کا بھی یہی حال نظر آتا ہے  ۔بات واضح اور  صاف ہے  ۔سب اسے جانتے ہیں اور سمجھتے  بھی ہیں کہ  ملکی اور عالمی نقطہ  نظر  گلگت بلتستان  کے بارے کیا ہے اور اس کی نوعیت  کیسی ہے ؟۔اب تو پاکستان کی بڑی عدالت نے  اس پر اپنی تصدیقی مہر بھی ثبت کر دی ہے ۔ایک واضح  اور ستھری  حالت سامنے آنے کے بعد بھی  زبانوں سے ” لا  "یعنی  نہیں  نکلنا  ۔ وجہ اس کی کیا بن سکتی ہے یا ہو سکتی ہے   اس پر تو بہت سی قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں  یا  اس کی وجوہات جاننے کے لئے کھوج لگایا جا سکتا ہے ۔ اب یہ  عدالت جانے یا عدالتی احکامات کو  عمل کروانے والے جانے  ۔اس وقت میرے سامنے آل پارٹیز  کانفرنس  کا ایک مشترکہ چارٹر آف ڈیمانڈ  ہے  اور اس میں دس مطالبات درج ہیں ۔اور ان کو پڑھتے ہوئے ایک دوست  کا  ان مطالبات کے بارے  لکھے ہوئے  مضمون میں  درج  لفظ مضحکہ خیز بھی یاد آیا  نہ جانے میرے اس دوست  کو ان مطالبات میں کونسا مطالبہ  مضحکہ  خیزنظر آیا اس کا ذکر  اس نے نہیں کیا تھا۔آپ یہ نہ سمجھنا کہ میں  ان مطالبات   پر تبصرہ کرکے   ان کا مذاق یا تمسخر  اڑانے  جا رہا ہوں  ۔ان مطالبات پر تبصرے کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے ۔بات یہ ہے کہ  مجھے اپنے اس دوست  کے اس لفظ (مضحکہ خیز) نے     ان مطالبات    کی تھوڑی سی تشریح  کرنے کے لئے  ابھارا  تو  میں نے سوچا کہ  تھوڑی سی  اپنی سوچ  کو لڑائوں اور دیکھوں  کہ ان مطالبات میں کتنا دم اور خم ہے۔ اس مشترکہ اعلامیہ کا پہلا  عزم اور واضح پیغام یہ ہے کہ    آل پارٹیز کانفرنس گلگت بلتستان کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرتی ہے ۔چلیں جی ہم مان لیتے ہیں  کہ    فیصلہ مسترد ۔مگر دوسری طرف  حکومتی  اور دیامر کے علما کا فیصلہ یکسر مختلف ہے ایک سپریم کورٹ  کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے جا رہا  ہے تو دوسر ے کو  سپریم کورٹ آف پاکستان کا  فیصلہ خوش آئند نظر  آتا ہے تو تیسری پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق حقوق چاہتی ہے   اور 15 لاکھ کی آبادی میں    ان کی  اچھی خاصی حامیوں کی تعداد کو بھی  رد نہیں کیا جا سکتا۔مجھے نہیں لگتا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد  کرنے  کااعلان  کوئی پذرائی حاصل کر سکے۔دوسرے نمبر پر جو مطالبہ درج کیا گیا اس کے تحت  گلگت بلتستان  کے حقوق کے حوالے سے  مشترکہ  تحریک چلانے کا عزم  کا اظہار ہے۔تحریک کب چلتی ہے اور کیسے چلتی ہے اس کے پیچھے بہت سارے  عوامل کار فرما  ہوتے ہیں   ان کا ذکر کئے بغیر اس مطالبے  کا جائزہ  لیا  جائے تو    اس مطالبے  میں    حقوق  کا ذکر تو ہے لیکن  تعین نہیں کہ کس قسم کے حقوق   ان کو چاہئے؟ اور مزے کی بات   یہ ہے کہ   سپریم کورٹ  کے واضح فیصلے کے باوجود ان پارٹیوں میں   اب بھی   گلگت  بلتستان  کو پاکستانی صوبہ قرار دینے  والی  پارٹیاں بھی  جوش خروش دکھا رہی ہیں ۔ممکن  ہو کہ اس میں کوئی گنجائش نکلے کہ یہ پارٹیاں کسی ایک  مطالبے پر متفق ہوں  لیکن دوسری طرف پاکستانی سیاسی پارٹیاں  اپنے سیاسی منشور سے روگردانی  کرتے ہوئے   مجھے دکھائی  نہیں دیتی ہیں ۔یہ پارٹیاں وہی  حقوق کے لئے جہد و جہد کرینگی جو وفاق ان  کے گلے  میں ہار بنا  کر  پہنا ئے گا۔ اپنے تیسرے مطالبے میں  آل پارٹیز   نے  دوسرے سٹیک ہولڈروں  سے مشاورت کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور تمام سٹیک  ہولڈروں  سے  بات چیت کے بعد  متنازعہ حقوق کی جہدو جہد کو تیز  کرنے کا مصمم  ارادہ  ظاہر کیا ہے ۔اس مطالبے کی طرف  نگاہ دوڑائی جائے تو یہ خود ایک متنازعہ مطالبہ لگتا ہے متنازعہ اس لئے کہ    اس مطالبے میں   متنازعہ حقوق  کا جملہ ہی   اس بات  کی دلیل ہے کہ اب  تک  کوئی بھی سٹیک ہولڈر  کسی ایک یا ایک سے زائد حقوق پر متفق    نہیں ۔ اور ان سٹیک ہولڈروں  کے موقف سے سب ہی آگاہ ہے  جس کا ذکر   کسی صاحب نے اپنے  ایک  آرٹیکل میں کیا ہے   ۔کسی کا رخ مشرق کی  طرف  اور کسی کا مغرب کی جانب اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ    ایک امام کے پیچھے  شائد ہی اقتدا ہو سکے۔ اپنے چوتھے مطالبے میں آل پارٹیز کانفرنس نے  انجانے میں یا    شائد اپنے لئے دروازہ  کھلا رکھنے کی  نیت  سے یہ  فرمان درج  کیا ہے کہ  سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد  گلگت بلتستان  کے آئینی  حثیت کے حوالے سے موجود  ابہام دور ہو چکا ہے  اس  جملے میں   وہ سپریم کورٹ  کے فیصلے کو قبول کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور پھر آگے   وفاق سے  اسی سپریم کورٹ  کے فیصلے کے  تناظر میں  حقوق فی الفور  فراہم  کرنے کا مطالبہ بھی  کیا جا رہا ہے ۔اب  کوئی ان سے یہ پوچھے کہ    ایک طرف  تو آپ متنازعہ  حقوق  کے لئے جہد و جہد  کرنے کا اعلان  کرتے ہوئے دکھائی  دیتے ہو  اور دوسری طرف  جس سپریم کورٹ  کے فیصلے   کو نامنظور اور رد کرتے ہو   ان حقوق کا  فوری طور پر نفاذ بھی ۔اس مطالبے کی  تشریح  کی ضرورت  محسوس نہیں کرتا     یہ  بات تو عام  انسان  کے بھی سمجھ  میں آتی ہے  ۔جب سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی آپ نے رد کر دیا ہے اور  آپ کو منظور نہیں تو   سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق    حقوق  جو دئے گئے ہیں یا جو نافذالعمل ہونگے    ان کا  مطالبہ  ۔کچھ   عجیب   سا نہیں لگتا  ؟مجھے توکچھ نہیں  بلکہ بڑا ہی اوکھا اور نا مناسب  لگتا ہے۔شائد میرے اس دوست   جس کا ذکر کالم کے ابتدائی سطور میں کرچکا ہوں  اس نے بھی اس مطالبے کو پڑھ کر ہی  مضحکہ خیز   کا لفظ  لکھ دیا ہو ۔اس سے آگے کے مطالبات   پانچ سے لیکر دس تک  وہ تمام کے تمام   ایسے مطالبات ہیں  جو صرف اس وقت ہی   قابل عمل  ہو سکتے ہیں  جب  گلگت بلتستان   کے تمام  سٹیک ہولڈر سپریم کورٹ آف پاکستان  کے فیصلے  کے مطابق  گلگت بلتستان  کو ریاست جموں و کشمیر  کا حصہ    مانتے ہوئے فیصلے کی روشنی میں  آزاد کشمیر طرز    یا  قومی حکومت    ایک واضح  ایجنڈے  پر متفق ہونگے ۔ گلگت بلتستان میں یہاں کے مقامی لوگوں پر مشتمل ایک اسمبلی موجود ہے   بے شک  اس  کے اختیارات کم یا زیادہ    پر  بحث  و مباحثہ ہو سکتا ہے  اس کو    اہل اور   سپریم کورٹ آف پاکستان  کے فیصلے  کی روشنی میں  حق حکمرانی  کی  بہترین منزل کی طرف  لے جایا جا سکتا ہے ۔   اب زمینی حقائق سے دور  اور  اپنی ڈفلی اپنی راگ  الانپنے  کا سسٹم  بند ہونا چاہئے   اکہتر سال  یہ بے چاری قوم  صوبے کی بتی  کے پیچھے  لگ کر  اپنی ایک نسل  کھو چکی ہے اور ایک نسل پروان چڑھی ہے  اب  اس نسل کو  مختلف قسم کے نعرہ بازیوں اور خیالی دنیا میں  نہ لے جایا  جائے تو یہاں کے عوام پر ان کا بہت بڑا احسان اور مہربانی ہوگی ۔متنازعہ خطہ گلگت بلتستان کے حقوق بڑے واضح اور صاف ہیں  اگر کسی کو نظر نہیں آتے ہیں تو  یہ ان کی نظروں کا قصور ہے یا   دال میں  کچھ کالا ہے ۔ہماری تو گلگت بلتستان کے تمام سٹیک ہولڈروں سے استدعا  صرف  یہی  ہوگی کہ  وہ سب کے سب سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے   طرز حکمرانی   جس کی سمت  عدالت عالیہ نے  دکھا دی ہے  اس پر روڑے اور کا نٹے بچھانے کے بجائے اس پر گامزن ہوکر   اپنی منزل کاحصول  یقینی بنائیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button