بیٹوں کو سکھائیں، بیٹیاں بچائیں!
جو معاشرہ اسلامی معاشرے کے نام سے جانا جاتا ہے۔جس معاشرےمیں مرد سربراہ بنا بیٹھا ہے اور عورت کو حقوق دینے کے دعوے دار ہے آج اسی معاشرے میں ایک درندے نے ایک معصوم زندگی کی خوشیاں چھین لی۔ آج پھر ایک نھنی جان اپنے وجود کو کوس رہی ہے۔ اسے اپنی بیٹی ہونے پہ رونا آ رہا ہے اور اس کی زندگی کا چراغ گل ہوتے نظر آرہا ہے۔ آج پھر ایک ماں زندگی جہنم بن چکی ہے اور ایک باپ جو کبھی اپنی معصوم پری کو اپنا فخر سمجھتا تھا وہ بے بس ہو چکا ہے اور اسے اپنی بیٹی کی نصیب سے شکایت ہے۔ آج پھر ایک خاندان اجڑ چکا ہے۔ وہ معاشرہ پر آمن ہونے کی وجہ سے مشہور تھا آج اس میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہا۔ ہسپتال جہاں لوگ شفا پانے آتے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں رہا کیونکہ یہ ہولناک واقعہ گلگت کے ایک ہسپتال میں رونما ہوا ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ہے اور عوام رنجیدہ ہیں۔ عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ اس درندے کو پکڑ کر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے تاکہ سب کے لیے عبرت حاصل ہو اور پھر کوئی ایسی درندگی کے بارے میں سوچنے کی بھی جرات نہ کر سکے۔ یہ مطالبہ بلکل درست ہے اگر اس سے بھی بڑی کوئی سزا موجود ہے تو وہ سزا سنائی جاے۔
بات یہاں پہ ختم نہیں ہوتی۔ یہ بڑی برائی اس نوعیت کی چھوٹی چھوٹی برائیوں کو نظر انداز کر نے کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ اس معاشرے میں عورت کئ بھی محفوظ نہیں۔ مرد جو اس معاشرے کا طاقتور ترین فرد خود کو سمجھتا ہے، جب تک وہ اس نشے میں رہے گا کوئی بیٹی محفوظ نہیں۔ گھر ہو یا دفتر، بزار ہو یا کوئی گلی ہوا کی بیٹیاں ہر کہی مرد کی گندی نگاہوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے کہ کسی لڑکی کو گندی نظر کا نشانہ بنا کر ، ان کے لیے نازیبہ بات بول کر یا پھر ان کو چھیڑ چھاڑ کر ان کو کونسا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ اگر یہ کام کرنے والے کو تمغے جراعت سے نوازا جاتا تو بات سمجھ آتی، اگر یہ سب کرنے سے ملک و قوم کا نام روشن ہوتا تو بات کی سمجھ آتی، اور اگر ان کی عزت کو چار چاند لگ جاتے ہو بھی بات کی سمجھ آتی لیکن یقیناً ایسا کچھ نہیں۔ کاش! ایسا ہوتا کہ کسی کے دل میں اگر یہ شیطانی خیال آتا اور اسی وقت اسے اپنی بیٹی بہن یاد آتی تو ان کو دوسروں کی بہن کی عزت کا اندازہ ہوتا۔ کاش ایسا ہوتا کہ جب کسی کے دل ودماغ میں شیطان قبضہ کرنے لگتا تو انہیں فورمز محشر کا خیال آتا تو شاید کسی لڑکی بیٹی کی زندگی تباہی سے بچ جاتی، کس ماں کو معاشرے میں سر اٹھا چلنے میں دقت پیش نہ ہوتی، کوئی باپ فخر سے اپنی بیٹی کا نام لینے سے کتراتا نہیں اور والدین بیٹی کی پیدائش پر دکھی نہ ہو تے۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ معاشرہ اصل معنوں میں اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے؟ بلکل بن سکتا ہے اگر اس کے سب ذمہ داران اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ یہ کام گھر کے چار دیواری کے اندر سے شروع ہوتا ہے۔ والدین اپنے بیٹوں کی اگر اس طرح سے تربیت کریں کہ وہ کسی اور کی بہن کی بھی اتنی ہی عزت کریں جتنی وہ اپنی بہن کی کرتا ہے۔ سکول کے اندر اگر اساتذہ بچوں کی اس طرح سے تربیت کریں کہ انہیں غلط اور صحیح میں تمیز کرنا آجاے۔ معاشرے کے اندر مذہبی اسکالر اگر اس طرح سے اسلام کی تعلیمات کو سکھائیں لوگ شیطان کے جھال میں نہ پھس سکے اور اگر پھر بھی ایسا واقع پیش آتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر سخت سے سخت قانون بنا دے اور ان کو عملی شکل بھی دے تو معاشرے میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔
حال ہی میں رونما ہونے والے اس مسلئے کو اگر فوری طور پر حل نہ کیا گیا اور ملزم کو اگر کڑی سے کڑی سزا نہ دی گئی تو اس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس واقعے کو اس طرح سے حل کیا جائے کہ پھر کوئی درندہ پیدا نہ ہو، پھر کوئی ایسی درندگی کے بارے میں سوچے بھی تو اسے خوف آجاے۔ اس معاشرے کے اس طاقتور فرد کو چاہیے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے اسے تھوڑا اونچا درجہ دے بھی دیا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ بھی ہوگی۔ بجائے کہ اس طاقت کا غلط استعمال کریں اسے کچھ اس طرح سے استعمال کریں کہ اس معاشرے کی بہن بیٹیاں چین کی زندگی بسر کر سکیں۔