نظریہ متنازعہ نہیں ہوتا
گلگت بلتستان کے آئینی مسلے پر گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد خطے کے لاکھوں نوجوان اس بحث میں مصروف ہیں کہ ہم متنازعہ ہیں حالانکہ کہ یہ پڑھی لکھی یوتھ اس بات کا بھی ادراک رکھتی ہے کہ گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کی ایک فریق ہے جس کے آئینی حدود کا تعین ابھی باقی ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان ایک انتظامی صوبہ ہے جو وفاق کے زیر انتظام چل رہا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کی ٹیکنیکل وجوہ پر گلگت بلتستان ایک مکمل صوبہ یا مکمل آئینی دائرہ کار میں لانا ریاست کیلئے ایک مشکل امر ہے کیونکہ اس عمل سے بین الاقوامی سطح پر کشمیر ایشو متاثر ہونے کا خدشہ ہے لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے وسائل’ اختیارات ‘ حقوق اور نوجوانوں کا پوٹینشل کسی طور بھی متنازعہ نہیں ہے یہ ممکن ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو عبوری آئین کے ذریعے تمام وفاقی اداروں میں نمائندگی دی جاسکتی ہے اس عمل سے مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کا فرق نہیں پڑتا کیونکہ 1962 میں گلگت بلتستآن کے علاقے ہنزہ کا کچھ حصہ اس وقت کے حکمرانوں نے جمہوریہ چین کو تحفے میں دیا ہے اور یہ معاہدہ محض عبوری سطح پر وجود میں آیا ہے کل کلاں اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد گلگت بلتستان کی پوزیشن جس سمت میں واضح ہوگی جمہوریہ چین دوبارہ معاہدہ کرنے کا پابند ہے عین اسی طرح عبوری سطح پر گلگت بلتستان کو آئین دے کر عبوری آئینی صوبہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے اس کے علاوہ دیگر صوبوں کو میسر اختیارات گلگت بلتستان تک منتقل کئے جاسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری اس غیر ضروری بحث نے نوجوانوں کو ذہنی طور پر منتشر کیا جس سے نوجوان نسل اپنے اصل اہداف سے گریز پا ہے اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ آلود بنا رہی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گلگت بلتستان کی عوام نظریاتی پاکستانی ہیں اور نظریہ کبھی متنازعہ نہیں ہوتا اور نہ ہی نظریہ کسی دستاویزی ثبوت اور جغرافیائی تقسیم کا محتاج ہے ۔ ہمارا پاکستان کے ساتھ تعلق بہت گہرا ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ اس غیر مشروط محبت کو بار بار جتانے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمتوں پر استوار کرتے ہوئے آگے بڑھیں کیونکہ پورے ملک کے شعبہ جات ہمارے منتظر ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہیں کہ ہماری صلاحیتیں بھی متنازعہ نہیں ہیں جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں بونجی کے سپوت ہدایت الرحمن کو یہ نہیں کہا کہ آپ متنازعہ ہیں فوج کی آخری رینک تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اور نہ ہی شگر کے فرزندان جی ایم سکندر اور افضل شگری کی سول سروس کی پرموشن میں کوئی رکاوٹ متنازعہ قرار دے کر ڈالی گئی بلکہ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور دوسرے نے آئی جی پی سندھ بن کر پورے صوبے پر حکمرانی کی اور تیسرے نے بیوروکریسی کی آخری سرحد تک جا کر پورے پنجاب کو چلایا۔ گلگت بلتستان کے ہزاروں جوان آج بھی ان تینوں سے زیادہ با صلاحیت اور آگے بڑھنے کی لگن رکھتے ہیں مگر ہم نے محرومی کے ایک ایسے خودساختہ درس کو عام کیا ہے جو نوجوان نسل کی پوٹینشل کو برباد کر رہا ہے ۔ فرض کریں آج اگر گلگت بلتستان آئینی صوبہ بن بھی جائے تو غریب کا اس میں کیا فائدہ ہے ؟ کتنے لوگ قومی اسمبلی و سینٹ جائیں گے ؟ اور وہ لوگ کس کلاس کے ہوں گے ؟ اگر آئینی حقوق نے طرز زندگی بدلنے ہوتے تو چترال اور کوہستان ہم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ گلگت بلتستآن کی شرح خواندگی پنجاب کے مقابلے میں ہے اور ترقی میں چترال و کوہستان ہم سے کئی سال پیچھے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذیہن نشین کرنے کی ضرورت ہے گلگت بلتستآن ہی اصل پاکستان ہے اور یہاں کی عوام محب وطن پاکستانی ہیں۔ پاکستان ہی اس خطے کا مقدر ہے اور پاکستان ہی پہلی و آخری منزل ہے ۔ مسئلہ کشمیر سے ٹیکنیکل تعلق بھی پاکستان سے محبت کا تقاضا ہے اور اس ملک سے سچی وابستگی کا عملی مظہر ہے ۔خطے کی باصلاحیت نسل کو چاہئے کہ وہ بے جا بحث و مباحثوں اور سوشل میڈیا پر الجھنے کی بجائے خود پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے سہارے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں اس ملک کا ہر بڑا ادارہ تمہارا استقبال کرے گا اور کل کو پورے پاکستان کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا موقع بھی ملے گا۔ نومبر 1947 میں ہمارے اسلاف نے ڈوگرہ کی تسلط سے آزادی بھی ایک نظریے کے تحت حاصل کی تھی اور بعد ازاں پاکستان میں غیر مشروط شمولیت بھی ایک خاص نظریے کے تحت تھی۔اس امر کو یاد رکھا جائے کہ نظریہ متنازعہ کبھی نہیں ہوسکتا اس ملک کی درو دیوار سے ہمارا رشتہ خونی اور آنگنت قربانیوں کا ہے ۔