Uncategorizedکالمز
گلگت بلتستان، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد
تحریر: ایس ایم شاہ
آئینی حقوق کا حصول دنیا کے ہر مہذب شہری کا بنیادی حق ہے۔ آئینی حقوق سے محروم گلگت بلتستان نے اپنی۷۲سالہ زندگی میں کافی نشیب و فراز دیکھے۔ تاہم ماضی قریب میں نوجوان نسل کے میدان عمل میں وارد ہونے اور آئینی حقوق سے محرومی کے احساس نے اس معاملے کو کافی اجاگر کیا۔ ساتھ ہی گلگت شہر عرصہ دراز تک سازشی عناصر کے ہاتھوں مسلکی منافرت کا شکار رہنے کے بعد سی پیک کی مرہون منت یہاں کے شہریوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملنے اور آپس میں شیر و شکر ہونے کے باعث آئینی حقوق کے معاملے کو ایک خاص حیثیت ملی اور مشترقہ حقوق کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی جی بی کے تمام باسیوں کی ایک آواز بن کر ابھری۔گلگت بلتستان اوئرنیس فورم کے زیر اہتما م ملک کے مختلف شہروں میں مقیم یہاں کے باسیوں کو اپنے حقوق سے محرومی کا احساس دلانے کی غرض سے مختلف کانفرنس اور سیمینارز منعقد ہوئے جو بہت ہی کارگر ثابت ہوئے۔
حکومت کی طرف سےآئینی حقوق سے متعلق کمیٹی گزشتہ دور حکومت میں تشکیل تو پائی لیکن ثمر آور ثابت نہیں ہوئی ۔ موجودہ حکومت کےبرسر اقتدار پر آنے کے بعد اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بلند وبانگ نعروں کے باعث امید کی ایک کرن ظاہر ہوچکی تھی۔ تاہم رواں ماہ سپریم کورٹ کا فیصلہ منظرعام پر آنے کے بعد یہ امیدیں پھر سے خاک میں ملتی محسوس ہورہی ہیں۔جس میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک متنازعہ حیثیت پر باقی رکھنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ اس کے بعد بڑےشد و مد کے ساتھ عوامی رد عمل سامنے آیا۔سنجیدہ حلقوں نے اس فیصلے پر اظہار برہمی کیا۔
یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر وہ کونسی طاقتیں ہیں جو گلگت بلتستان کے آئینی حقو ق کی راہ میں آڑے آتے رہتے ہیں۔ علامہ امین شہید اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں ریاستی اداروں میں موجود ضیاء الحق کی باقیات رکاوٹ بن رہی ہیں۔ موصوف کے بیان میں کافی وزن دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں ضیاء الحق کی شدت پسند سوچ کے باعث اب تک مملکت خداداد پاکستان ستر ہزار سے زائد پاک فوج کے جوان اور محبت وطن شہریوں سے محروم ہوچکے ہیں، وہیں ملکی فیصلہ ساز اداروں میں موجود ایسے شدت پسند عناصرجی بی کےشہریوں کے آئینی حقوق کے حوالے سے ہر موڑ پر آڑے آتے رہتے ہیں۔ جب تک ہمارے اداروں سے ایسے عناصر کا صفایا نہیں کیا جاتا اور تمام تر تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے نہیں کیے جاتے، اس وقت تک جی بی کے لوگوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان رئیس صاحب کے بیان کے مطابق سپریم کورٹ نے جی بی کو متنازعہ تو قرار دے دیا لیکن متنازعہ حقوق کہیں نظر نہیں آتے۔ عوامی ایکشن کمیٹی اپنی تحریک کو گلی گلی لے کر جائے گی۔ مولانا صاحب کی بات بھی حق بہ جانب ہے کیونکہ نہ ہمیں صوبائی حقوق حاصل ہیں اور نا ہی اقوام متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق حقوق دیے گئے ہیں بلکہ بعض حقوق تو چھین بھی لیے گئے ہیں ان میں سے ایک جی بی سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ کرنا ہے۔
علامہ سید راحت حسین الحسینی بھی اظہار نظر کرچکے ہیں کہ گلگت بلتستان اگر پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں ہے تو یہاں کے عوام کو حق حاصل ہے کہ اپنی ریاست کے قیام کی بات کریں۔ یقینا موصوف کا بیان بھی حق بہ جانب ہے کیونکہ یہاں کے عوام کاگزشتہ۷۲سالوں سے مملکت خداداد پاکستان سے عشق کا اظہار کرتے رہنے اور ہر مشکل گھڑی میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے باوجود بھی ہر مرحلے پر محرومیوں میں اضافہ ہوتے ہی جانا ملکی اداروں سے عوامی اعتماد کے اٹھ جانے کا سبب ہے۔ آل پارٹیز کانفرس نے بھی گلگت بلتستان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے تحریک چلانے کا اعلان کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اگر ہمیں متنازعہ سمجھتا ہے تو ہم اپنے متنازعہ حقوق لیکر رہیں گے۔ ان کا بیان بھی بالکل معقول دکھائی دیتا ہے کیونکہ یا باقاعدہ آئین پاکستان میں ترمیم کرکے جی بی کو ایک مستقل صوبہ قرار دیا جائے یا ہمیں اپنے متنازعہ حقوق دیے جائیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد عوامی توجہ اس معاملے سے ہٹانے، متوقع رد عمل کو روکنےاور عوام پر نفسیاتی دباؤ بنانے کی غرض سے سکردو انتظامیہ کے ذریعے بے بنیاد الزامات کو بنیاد بناکر شیخ حسن جوہری صاحب کو گرفتار کرایا گیا۔ جب ان کی توقعات کے برعکس اس پر شدید عوامی رد عمل سامنے آیا اور آئینی حقوق سے متعلق آواز دبنے کے بجائے اس میں مزید شدت آتی گئی تو مجبور ہوکر انہیں رہا کرنا پڑا۔
فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود خان صاحب جو اپنے تواضع اور خوش اخلاقی کے باعث جی بی عوام میں کافی مقبولیت پاچکے ہیں۔ اب شائد ان کے ذمہ یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ متوقع رد عمل کے مسئلے کو خوش اسلوبی سے سلجھانے کی کوشش کی جائے۔ موصوف مختلف دوروں کے ذریعے ہر ممکن کوشش میں مگن ہیں۔ یہاں تک کہ گرفتاری کے باعث پڑنے والے غلط اثرات کو کم کرنے کی غرض سے موصوف شیخ حسن جوہری صاحب سے بھی ملاقات کرچکےہیں ۔ سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے حوالے سے کچھ سخت لہجہ اختیار کرنے والے جوانوں کو اس یخ بستہ موسم میں برفانی پہاڑوں کی سیر اور پاک فوج کے جوانوں کے ذریعے ان کا استقبال کراکر ان کے دلوں کو موم کرنے کی خاصی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اقدام اپنی جگہ مستحسن عمل ہے لیکن عوامی حقوق کے حوالے سے اٹھنے والی آواز کو دبانے کےلیے یہ حربہ کبھی بھی کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ یہاں کے شہریوں کے رگ و پے میں پاکستان کی محبت بھری ہوئی ہے۔ ثاقب نثار صاحب چند روزہ دورے کے بعد خود بیان دے چکے کہ ہیں کہ جی بی کے پتھروں سے بھی پاکستان کی محبت ظاہر ہورہی ہے۔ یہاں کا ہر شہری پاک فوج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کے عوام اپنے بنیادی آئینی حقوق سے محرومی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اب عوامی سطح پر اپنے حقوق سے محرومی کا احساس برملا ہوگیا ہے۔ اس کا واحد حل آئینی حقوق کی فراہمی ہے۔ فی الحال آئینی حقوق کے حصول کے کوئی آثار نہیں دکھائے دے رہے۔ البتہ ہمارے تعلیم و تربیت سے آراستہ پیراستہ جوانوں کا پہاڑ جیسا عزم ، ملت کا سیسہ پلائی ہوئی دیوار جیسا اتحاد اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی بھرپور سرپرستی اور راہنمائی ساتھ رہی تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے حقوق لے کے رہیں گے۔ہمارے دلوں میں اب بھی امید کی کرن باقی ہے۔ لہذا فی الحال ہمارا مستقبل دھندلا سا ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن عوامی جد وجہد اور استقامت ضرور رنگ لائے گی، سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑے گا، محرومیوں کا ازالہ ضرور ہوکر رہے گا۔ یوں ہمارا مستقبل تابناک ہی ہوگا ان شاء اللہ۔