ہم سب ایک ہیں
پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کی مخالفت کرنے والے در اصل اپنی حمایت میں اٹھنے والی آواز اور سہارے کو کھو رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انڈیا کے مظالم کو اون کر رہے ہیں۔جو وہ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ وادی کشمیر میں ڈھا رہا ہے۔ کشمیر خود مختار بنے یا پاکستان سے الحاق کرے سوال یہ نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور ہندوستانی زیر انصرام کشمیر میں تکلیف کس کو زیادہ ہے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جنت نظیر کشمیر کو جنہم میں تبدیل کرنے میں کس ملک کا ہاتھ ہے ۔غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جا ئے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ ہندوستان ہی ہے جو خود اقوام متحدہ گیا اور یہ ہندوستان ہی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردوں کو پس پشت ڈال رہا ہے۔کیا کسی کو یہ پوچھنے کا اختیار نہیں کہ اس وقت ہندوستان کی پانچ لاکھ فوج ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں کونسے باڈر پر جنگ لڑ رہی ہے۔اس کے مقابلے می کشمیر ڈے کی مخالفت کرنے والے یا پاکستان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے کیا یہ بتانا پسند کرے کہ کیا ہندوستان نے کبھی مظلوم کشمیریوں کی اسی طرح کھل کر حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے جس طرح پاکستان نے کیا ہے؟ اس دن کو منافقت سمجھنے والے اصل میں مظلوم کشمیریوں کے اوپر جو مظالم ہو رہے ہیں ان سے بے خبر ہیں ۔۔ ان کی آگاہی کے لئے ان کی سوچ کے لئے اگر وہ لوگ عملی طور پر خود حصہ نہیں لے سکتے تو حمایت کرنے والوں چاہئے وہ جس شکل میں ہو دوستی اور ہمدردی ہی سمجھ کر قبول کریں اور اس وقت مظلوم کشمیریوں کے لئے زیادہ دوستوں کی ضرورت ہے نہ کہ دشمنوں کی۔ زیادہ نہیں لکھونگا ورنہ کئی لوگوں کا بی پی بہت ہائی ہو جائیگا۔ویسے بھی لوگ ٹانگیں توڑنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
ہم کسی کی ٹانگ توڑنے یا آنکھ نکالنے کی بات نہیں کرتے ۔ہم تو جوڑنے کی باتیں کرتے ہیں ،چاہئے اس دیس کا ہو یا اس دیس کا یہ سارے دیس ہمارے ہی ہیں۔ اس دیس کا باسی ہو یا اس دیس کا باسی خطے میں رہنے والے سارے مظلوم ہیں، خصوصاً وادی کشمیر ۔ یہ سب اکہتر سال سے اقوام متحدہ کی قرارد پر عمل درآمد کے انتظار میں ہیں ۔۔یہ انتظار کب ختم ہوگا اس کا تو ہمیں معلوم نہیں لیکن ایک بات ضرور جانتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔
آج جس طرح ہم یوم یکجہتی منا رہے ہیں اسی طرح سارا سال یہ دن منایا جائے بلکہ ایک دن یوم یکجہتی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان بھی منایا جائے تو کیا ہی اچھا ہو اس سے نہ صرف ہم قریب آسکتے ہیں بلکہ اس سے ہمارے بہت سارے مطالبے اور مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے سے بہتر نہیں ہے کہ ہماری ایک مشترکہ اسمبلی ہو جس کا نام ہو آزاد کشمیر گلگت بلتستان اسمبلی اور اس اسمبلی کے تحت ان دو خطوں کے بیس ضلعوں کے چار ریاستی اسمبلیاں اور ان خطوں میں رہنے والے سب ایک ہیں ۔ ہم کل بھی ایک تھے آج بھی ایک ہیں اور آنے والے مستقبل کو بھی ایک ہوکر ہی اچھا بنا سکتے ہیں۔