ضلع گانچھے میں انتظامی افسران کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی
تحریر : فدا حسین
گلگت بلتستان کے کسی بھی دوسرے ضلع کی طرح بیورو کریسی کے ایک طبقے کی جانب سے ضلع گانچھے کے لوگوں کے بنیادی حقوق کو بڑے ناز و نخرے کے ساتھ پامال کر نے کی خبریں آہستہ آہستہ میڈیا کی زینت بن رہی ہیں ۔ یہ ضلع پاک بھارت سرحدی حدود میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔اس علاقے کے لوگوں کی حب الوطنی بھی اپنی مثال آپ ہے ۔ مثال کے طور پر سال 2012میں گیاری سیکٹر میں برفانی تودہ گرنے سے شہید ہونے والے پاک فوج کے سینکڑوں نوجوانوں میں کھرکوہ نامی گاؤں کے دو جوان بھائی بھی شامل تھے ان کی شہادت پر انکے بہادر باپ کا کہنا تھا کہ اگر میرے اور پانچ بیٹے بھی ہوتے تو انہیں بھی وطن پر قربان کرنے سے دریغ نہ کرتا ۔ضلع گانچھے اپنی شرافت اور امن پسندی کی وجہ سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کیونکہ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے یہاں کے لوگوں کو تہذیب یافتہ قرار دیتے ہوئے ان کی تہذیب سے سیکھنے کی تلقین کرتے تھے ۔ عمران خان کی یہ ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔ مگر بدقسمتی سے بیوروکریسی کے بعض عناصر ان کی اس شرافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں پر مسلط ہونے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔اس حوالے سے قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ گزشتہ سال 10جون کو گلگت بلتستان کے اس وقت کے چیف سیکریڑی بابر حیات نے گانچھے میں گائناکالوجسٹ نہ ہونے کی شکایت پر جو تضحیک آمیز لب و لہجہ اختیارکیا تھا وہ سوشل میڈیا کے توسط سے پوری دنیا میں پہنچا ،اب ضلع گانچھے کے سب ڈویژن مشہ بروم جو کہ سیاچن کے دامن میں واقع ہے کے اسسٹنٹ کمشنر فہد محمود کے تضحیک آمیز رویے نے سابق چیف سیکریڑی بابر حیات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سیاچن کے دامن میں موجود دم سم نامی گاؤں کے لوگوں نے بجلی نہ ہونے پر چند روز پہلے احتجاج کیا تھا جس پر سب ڈویژن مشہ بروم کے اسسٹنٹ کمشنر فہد محمود صاحب نے آپے سے باہر ہو کر مبینہ طور پر پولیس کے ذریعے پہلے امام مسجد اور پھر علاقے کے عمائدین کو اپنے دفتر بلایا اور آئندہ احتجاج کرنے کی صورت میں جیل بھیجنے کی دھمکی دیتے ہوئے آئندہ احتجاج نہ کرنے کا وعدہ لیا ۔ شنید یہ بھی ہے کہ چند لڑکوں نے احتجاج کے دوران پاؤر ہاؤس میں گھس کر وہاں پر ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں پر تشدد کرنے اور مشینوں کو بند کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔(اس کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے) اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں احتجاج کرنے والوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں مگر آئندہ احتجاج کی صورت میں جیل بھیجنے کی دھمکی دینا اس سے کہیں زیادہ قابل مذمت ہے اگر آپ احتجاج کرنے والوں کو جیل بھیجنے کی دھمکی دیں گے تو کس منہ سے مقبوضہ کشمیر میں پیش ہونے والے واقعات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیں گے؟ اگرچہ پورے گلگت بلتستان میں عموما اور ضلع گانچھے میں خصوصا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسی ضلع میں گائناکالوجسٹ کی تعیناتی کا مطالبہ کرنے والوں سے ٹیکس نہ دینے کا طنزیہ سوال اور ایک سال میں ہونے والی 35 خواتین کی اموات کو صرف 35 کہنے والی بات سے گانچھے کے عوام بھی بنیادی حقوق کے احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہونے لگے تھے جسے اس واقعے نے اور زیادہ مضبوط اور توانا کیا ہے ۔یہ وہ واقعات ہیں جو میڈیا کے وساطت سے لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں ورنہ بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جن کے بارے میں ابھی تک لوگ لاعلم ہیں۔ ان میں سے چند ایک کا یہاں پر تذکرہ کر دیتا ہوں: خپلو میں کقتونگ نامی جگہ کے اکثر حصوں پر سرکار قابض ہے ،علاقہ مکینوں کے مطابق یہ جگہ ضلع گانچھے کے صدر مقام خپلو کے ملدومر نامی محلہ والوں کی ہے۔ اس پر سرکاری عمارت تعمیر شروع ہونے پر احتجاج کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں مگر اب اس پر خاموشی ہے ہو سکتا ہے کہ سرکار اور اہل محلے کے درمیاں کوئی معاہدہ ہوا ہو اگر ہوا بھی ہے تو سوال تو یہ ہے کہ یہاں اہلیانِ محلہ کے مفادات کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے۔ضلع گانچھے کے علاقہ سلینگ میں ٹرک روڈ توسیع منصوبے کے زد میں آنے والے درختوں کا ابھی تک معاوضہ نہیں دیا گیا ہے اس بارے میں شنید ہے کہ اسسنٹ کمشنر ڈوغنی غیر انتقال شدہ زمین پر موجود درختوں کامعاوضہ دینے کو قانون کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ یہ اس طرح کے کاموں کو غیر قانونی قرار دینے کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے اسی گاؤں میں مقامی لوگوں نے جب بنجر زمینوں کی آباد کاری شروع کی تو انہیں سرکار کی طرف سے نوٹسز بھی ملتے رہے ہیں ۔ وہ زمین وہاں کے لوگوں کی زمین ہے حالانکہ سرکار کو ایسی زمینوں کو آباد کرنے پر انہیں انعام بھی دینا چاہیے مگر وہ اس طرح آبا دکاری کو ہی غیر قانونی قرار دینے پر مصر ہیں ۔ان صاحبان کو ابھی تک یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ حضور اگر آپ نے آئین اور قانون ہی کی بات کرنی ہے تو آپ کی اس علاقے کی موجودگی ہی بین الاقوامی قانون کے ساتھ پاکستان کی اعلیٰ تریں ادارہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی بھی توہین ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے رواں سال 17جنوری کو اپنے فیصلے میں گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیا ہے اور متنازعہ علاقے میں غیر مقامی آفیسران کی تعیناتی سپریم کورٹ آف پاکستان کے 28مئی 1999 کے الجہاد ٹرسٹ کیس بنام وفاق پاکستان فیصلے کی روشنی میں غیر قانونی ہے اس فیصلے میں فوج کے علاوہ باقی تمام اہلکاروں کو فی الفور واپس بلانے کا حکم دیا ہوا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداروں کا تقاضا بھی ہے ۔ ویسے بھی گلگت بلتستان میں عام خواندہ افراد کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے اگر انہیں کسی بھی قسم کی انتظامی عہدے پر تعینات کیاجائے تووہ نہ صرف امور بہتر طریقے سے انجام دیں گے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک مثال بن جائیں گے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں نے نہ صرف باضابطہ طور پرکسی بیورکریٹ کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے کم و بیش ہر بیورکریٹ کا خیرمقدم کیا ہے ۔ تاہم اِس وقت اگر سب ڈویژن مشہ بروم کے اسسٹنٹ کمشنر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا جار ہا ہے تو قانونی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ ان کی اپنی کارکردگی کی وجہ ہے کیونکہ فرعونیت اور رعونت کے حامل لہجوں کو ہر جگے پر زلت و رسوائی ملتی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ گلگت بلتستان میں خاص طور پر گانچھے کے عوام جیل سے ڈرتے تھے مگر قوانین کے غلط استعمال کی وجہ سے اب لوگوں میں جیل کا خوف بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔فطری طور پر گلگت بلتستان کے لوگ نڈر ہیں جس کا ثبوت یہ ہے انہوں نے اسلحے سے لیس ڈوگرہ کے فوج کو ڈنڈے اور پتھروں کی مدد سے بھاگا کراپنا علاقہ آزاد کیا تھا اس لئے انہیں جیل کے خوف سے ڈرانا انتہائی احقوں والی بات ہے کیونکہ جیل سے وہ اس لئے نہیں ڈرتے ہیں کہ وہاں پر انہیں ذد کوب کیا جائے گا بلکہ وہ جیل جانے کو اپنے لئے بدنامی کا باعث سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے معاملات کو تھانوں اور عدالتوں میں میں لے جانے کے بجائے مقامی سطح پر مقامی عمائدیں کی مدد سے حل کرتے ہیں اور اس کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی قانونی چاراجوئی نہیں کرتے۔تاہم اب انتظامی آفیسران کی طرف سے ناز نخرے کے ساتھ انسانی حقوق کی پامانی کی داستان عام ہونے لگی ہے۔ حکام بالا کو اس طرح کےواقعات کا نونٹس لینا چاہیے اس سے پہلے کہ صورت حال بے قابو ہو جائے ۔علاوہ ازیں اب تک ان واقعات پر پیپلز پارٹی گانچھے کے سید نذر کی مذمت کے علاوہ باقی سیاسی لوگوں کی خاموشی بھی لائق مذمت ہے۔ وما علینا الا لبلاغ