جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام میں اختلافات کی اصل وجوہات
دور قدیم سے گلگت بلتستان اور جموں کشمیر میں خودمختار ریاستیں ہوا کرتی تھیں،گلگت بلتستان اور جموں کشمیر کے پہلے آباد کار کون تھے اس موضوع پر مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے،اپنے موضوع کی طرف آنے سے قبل مختصرا گلگت بلتستان اور جموں کشمیر کی تاریخ پر روشنی ڈالنے کی کوشیش کروں گا تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو ،
گلگت بلتستان کی قدیم ریاستوں ( بروشال،دردستان،بلورستان) کے انہدام کے بعد آٹھویں صدی عسوی میں خاندان شاہ رئیس نے جدید ریاست کی بنیاد ڈالی،شیری بگورتھم نے گلگت پر حملہ کر کے اگورتھم کو موت کے نیند سلا کر گلگت پر قبضہ کر لیا،شیری بگورتھم کے خاندان نے کم و بیش تین سو سال گلگت پر حکمرانی کی،حوالہ تاریخ جموں،
اسی خاندان کے آخری چشم و چراغ شیری بدت پر اپنے ہی رعایا نے آدم خوری کا جھوٹا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کر دیا،یہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاه ترین دن تھا کہ اپنوں نے ایک غیر کے اشارے پر اپنے ہی درتی کے وارث کو آگ کی شعلوں میں زندہ جلا دیا،شیری بدت اپنے سر آدم خوری کا جھوٹا الزام لئے آج بھی کسی گمنام قبر میں آسودہ خاک ہے،ہمارا یہ مزاج آج بھی نہیں بدلا ہے،
آزرجمشید نے بارویں صدی عسوی میں تراخانی حکومت کی بنیاد ڈالی ،جو انیسویں صدی عسوی کے اوائل تک قائم رہی،تراخان دور حکومت کے ابتدائی ایام پرآمن رہے ،کوئی قابل ذکر شورش برپا نہیں ہوئی،تاہم تیرویں صدی میں بدخشان سے تاج الدین مغل کے حملوں نے ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں،
ستره ویں صدی میں ریاست کے شمالی صوبے چترال میں شورش،اور بغاوتوں نے سر اُٹھانا شروع کیں،ان بغاوتوں کو کچلنے میں ریاست بری طرح نام رہی ،یہی وجہ تھی کہ ان طاقتوں نے پہلے پہل چترال پھر یاسین کو بھی اپنی حدود میں شامل کیا ،اور یکے بعد دیگرے گلگت پر تواتر کے ساتھ حملے شروع کئے ۔
١٧٩٢ کے بعد گلگت ،یاسین ،پونیال دیامر استور ۔ہنزہ اور نگر کی ریاستیں بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار رہیں،اور پورا ملک سول وار کی زد میں گیا،ایک ریاست کا دوسرے پر حملہ، اور قتل و غارت گری کا ناختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوا،جو ائندہ آنے والے عشروں میں تباہ کن ثابت ہوئے،
ادھر گلگت میں حالات اس نہج تک پہنچ چکے تھے،جبکہ دوسری طرف بلتستان میں بھی حالات و واقعات کچھ مختلف نہیں تھے،١١٩٠ میں ابراہیم مقپون سے شروع ہونے والی حکومت مختلف نشب و فراز سے گزرتی ہوئی بلاخر علی شیر خان انچن(١٥٩٥تا ١٦٣٣) پر آکر ڈگمگانے لگتی ہے،اور شورشوں نے سر اٹھانا شروع کی،بلتستان کی تاریخ پر بحث سے پہلے جموں کشمیر کی مختصر تاریخ پیش خدمت ہے،کشمیر کی خوبصورت خطے کی تاریخ نے ان گنت اتار چڑھاؤ دیکھیں ہے،اس خطے کی چار ہزار سالہ تاریخ میں کم و بیش ایک ہزار سال بیرونی حکمرانوں نے حکومت کی ہیں،پندرھویں اور سولہویں صدی عسوی میں چک خاندان کشمیر پر حکومت کرتے تھے ۔جو نسل کے اعتبار سے بلتی تھے۔سن ١٥٨٦ میں چک خاندان کے آخری حکمران یوسف شاہ چک کو مغلوں کے ہاتھوں شکست ہوئی،یہ وہ دور تھا جب کشمیر میں فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی تھی اور یوسف شاہ چک پر فرقہ وارانہ بنیاد پر مظالم کا جھوٹا الزام لگا کر کچھ لوگوں نے مغل دربار سے روابط بڑھائے تھے،اور شہنشاه اکبر کو کشمیر پر حملے کے لئے اُکسائے تھے۔مغلوں نے یوسف شاہ چک کو بیہار میں جلاوطن کیا،تا دم مرگ یوسف شاہ چک بیہار میں رہے۔
کشمیر میں قدم جمانے کے بعد مغلوں نے بلتستان پر بھی دست درازی شروع کی،لیکن فاتح اعظم علی شیر خان انچن کے ہاتھوں دیوسائی کے میدان میں بدترین شکست کے بعد پھر بلتستان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکیں،اور علی شیر انچن سے بہتر تعلقات استوار کئے۔سن ١٧٥٢ میں احمد شاہ ابدالی نے قیام لاہور کے دوران ہی کشمیر پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا،اندرونی خلفشار کی وجہ سے حالات حملے کے لئے بڑے سازگار تھے۔کیونکہ رعایا مغل گورنروں کی ظلم سے تنگ ا چکے تھے،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو نجات دہندہ سمجھ کر ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔١٨٥٢ سے ١٨١٩ تک افغانی کشمیر پر حکمران رہے،
١٧٩٩ میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر لیا،اور تخت لاہور پر متمکن ہوئے،اس کے بعد رفتہ رفتہ مختلف علاقوں کو اپنے مقبوضہ جات میں شامل کرتے رہے،بلاخر ١٨١٩ میں کشمیر پر بھی اپنی فتح کےجھنڈے گاڑ دئے،
تاریخ کے اس موڈ تک گلگت بلتستان جموں کشمیر کی سیاسی اتار چڑھاؤ سے الگ تھلگ ہی رہا،نہ چک خاندان نے گلگت بلتستان کو اپنی حدود میں شامل کیا نہ افغانوں نے یہاں کا رخ کیا۔
جیسا پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ستره ویں صدی کے وسط سے گلگت بلتستان کے سیاسی حالات ابتر ہو چکے تھے،اپس کی جنگ و جدل سے پورا ملک طوائف الملکی کا شکار تھا۔
بلتستان کے حکمرانوں کی باہمی چپقلش نے سکھوں کو بلتستان کا راستہ دیکھا دیا،احمد شاہ راجہ سکردو کے بیٹے محمد شاہ نے اپنے باپ کے خلاف وزیر زوراور سنگھ کو سکردو پر حملے کے لئے آماده کیا،١٨٤٠ میں کھرمنگ کے راجہ علی شیر خان کی امداد سے وزیر زوراور سنگھ نے احمد شاہ کو شکست دے کر سکردو پر قبضہ کر لیا،تاریخ میں پہلی دفعہ بلتستان پر غیر بلتی حکمران قابض ہوئے،
انہی عشروں میں جو حالات و واقعات بلتستان میں وقوع پزیر ہو رہے تھے یہی حالات گلگت میں بھی سر اٹھا رہے تھے،
گوہر امان کے یاسینی افواج کے ہاتھوں گلگت ،پونیال اور اردگرد کے علاقے تباہ و برباد ہو رہے تھے۔١٨٤٢ میں راجہ کریم خان اور عیسی بہادر نے گوہر آمان کے خلاف سکھ دربار سے مدد کی اپیل کی،اور سری نگر میں موجود سکھ گورنر کو ڈرایا کہ گوہر امان جلد کشمیر پر یلغار کرنے والے ہے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائیں ، گلگت پر جتنی جلد ہو سکے حملہ کرنا چائیے ،سکھوں نے بلاخر گلگت پر حملہ کر دیا،تاریخ میں پہلی بار سکھوں نے گلگت بلتستان پر اپنوں کی نااتفاقی کی وجہ سے قابض ہو گئے ،
١٨٤٩ میں خالصہ سرکار لاہور کا خاتمہ ہو گیا،کیونکہ پہلی اور دوسری سکھ اینگلو وار کی وجہ سے سکھ حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ،جب ١٨٤٦ میں سکھ سرکار نے انگریزوں کو جنگ کا تاوان ادا نہ کر سکے تو اس رقم کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے ادا کر کے چھ مارچ سن ١٨٤٦ میں معاہدہ امرتسر کے تحت جموں کشمیر کو ٧٦٠٠٠٠ روپے لاکھ نانک شاہی میں حاصل کر لیا،اس معاہدے میں گلگت بلتستان شامل نہیں تھا،اس معاہدے سے قبل ہی گلگت اور بلتستان پر سکھ قابض ہو چکے تھے،خالصہ سرکار حکومت کے خاتمے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے آسانی سے گلگت اور بلتستان میں سکھ گورنروں کو حکومت سے بے دخل کر کے گلگت اور بلتستان پر اپنی حکومت قائم کی،ڈوگرہ حکومت کو گلگت میں زبردست مزاحمت کا سامنا ہوا،سن ١٨٥٢ میں یاسین، ہنزہ نگر اور داریل تنگیر کے اتحاد نے ڈوگروں کو گلگت سے بےدخل کر دیا،لیکن سن ١٨٦٠ میں گلگت پر ڈوگروں نے دوبارہ قبضہ کر لیا،اس کے برعکس بلتستان میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف مزاہمت نہیں ہوئی،
سن ١٨٦٣ میں یاسین کو مہاراجہ رنبیر سنگھ نے فتح کیا،١٨٦٦ میں داریل اور ١٨٥١ میں چلاس کو تسخیر کر لیا،یہ بڑا ہی پراشوب دور تھا،مہاراجہ رنبیر سنگھ نے گلگت میں طاقت کا بے دریغ استعمال کیا،ڈاکٹر لٹنر کے مطابق لوگوں کو قتل کرنے کے بعد لاشوں کو درختوں پر لٹکایا جاتا تھا،ہڈیوں کے ڈھانچے سالوں درختوں پر موجود ہوتے تھے،حوالہ دردستان،ڈاکٹر لیٹنر،
١٨٨٥ میں مہاراجہ ترتاب سنگھ حکمران بنے اور اپنے مہمات فتوحات سرحدی کے تحت ١٨٩١ میں انگریزوں کی مدد سے ہنزہ نگر کو بلاخر تسخیر کر لیا،
چترال سن ١٨٩٥ میں حکومت برطانیہ کے زیر نگیں آ گئی،اس کے ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کی حدود شمال میں پامیر تک پھیل گئی،ڈوگرہ دور حکومت میں گلگت بلتستان میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے ،دریاؤں پر مظبوط پل تعمیر کئے گئے،سڑکیں تعمیر ہوئیں،اس دور میں گلگت بلتستان میں غیر آباد زمینوں تک نہریں کھودی گئی ،زمینیں آباد کر کے مقامی لوگوں میں تقسيم کئیں گئیں،زمینوں کی آباد کاری اس دور کا سب سے بہترین کام تھا،اس دور میں غریبوں پر مظالم کے قصے ہر عام و خاص کے زبان پر ہوتےتھے،لیکن میں یہ واضح کروں کہ مقامی لوگوں پر مظالم اپنے ہی لوگ کرتے تھے جن میں مقامی گورنر ، اور خاص کر نمبردار ،اصاقال غیرہ۔یہی وہ لوگ تھے جو اپنے لیول کا کرپشن کرتے تھے۔
دنیا کی تاریخ میں ریاستوں کے حدود تبدیل ہوتیں رہیں ہیں،حدود کی تبدیلی سے اقوام کا نام یا قومیت تبدیل نہیں ہوتی،جس طرح کشمیر پر افغانوں ،مغلوں اور سکھوں نے حکمرانی کی ،اس سارے عرصے میں کشمیری نہ افغانی بنے نہ مغلی بنے نہ چک بنے ،بلکہ کشمیری ہی رہے،انگریزوں نے برصغیر پر سو سال حکومت کی لیکن یہاں کے لوگ انگريز قومیت میں تبدیل نہیں ہوئیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈوگروں نے سو سال گلگت بلتستان پر حکمرانی کی تو کیا بلور قوم اس عرصے میں کشمیری قومیت میں حلول کر گئے،یہی وہ سوال ہے جس کی وجہ سے جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پایا جاتا ہے،ہم یہ مانتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا،
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک رہنما اعظم ضیا اپنے ایک بیان میں فرما رہے تھے کہ ،ساری دنیا میں کشمیر سے مراد ریاست جموں کشمیر اور کشمیری سے مراد اس ریاست کا باشندہ لیا جاتا ہے،اس سےمقامی شناخت کو کوئی فرق نہیں پڑتا،مثلاً یورپ میں کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ گگتی ہے بلتی ہے یا کہ جموال ۔بلکہ وہ ریاست کا شہری ہے یعنی کشمیری ہے،
جموں کشمیر کے تمام ہی سیاسی جماعتوں کا گلگت بلتستان کے بارے میں اس سے ملا جلا تاثر پایا جاتا ہے،کشمیری عوام اور ان کی سیاسی جماعتيں بلور قوم کی قومی شناخت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں،بلکہ ان کا موقف یہی ہے کہ ان کی سو سالہ حکومت کی خاطر ہم اپنی قومی شناخت اپنی ہزار سال کی تاریخ کو ملیامٹ کرے،
جموں کشمیر کی کچھ قوم پرست جماعتوں کا موقف گلگت بلتستان کے حوالے سے کلیئر ہے،اور گلگت بلتستان کے عوام میں بھی کسی حد تک یہ قوم پرست جماعتيں مقبول بھی ہیں،
لیکن حریت کانفرنس ،مسلم کانفرنس ۔لبریشن فرنٹ کے بیانیہ میں تضاد پایا جاتا ہے،ان جماعتوں کی اس دھندلی پالیسی نے ریاست جموں کشمیر کے باشندوں میں کنفوژن پیدا کی ہے ،مسلم کانفرنس ۔حریت کانفرنس اور لبریشن فرنٹ کا نظریہ الحاق پاکستان ہے، اگر یہی ان جماعتوں کی آخری منزل ہے تو پھر گلگت بلتستان کو پاکستان کا ائینی حصہ بننے کی راہ میں کیوں روکاوٹ بنتے ہیں،اپ بعد میں ہی صحیح آخر پاکستان کا حصہ تو بننا ہی ہے،
اگر ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کی بات ہو تواپکو اپنی پالیسیز پر نظرثانی کرنی ہوگی،اور ریاست کے تمام اقوام کو ان کی قومیت اور ان کی پہچان کو تسلیم کر کے اگے بڑھنے کی ضرورت ہے،واضح رہے کراچی معاہدہ جس میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائنده شامل نہیں تھا ،مسلم کانفرنس اس سارے عمل میں شریک تھی،یہی وہ چند عوامل تھے جن کی وجہ سے ریاستی عوام کے درمیان نفرت کی فضا پیدا ہوئی ہے،