کالمز

اخلاق کے پیکر میر اخلاق

رشید ارشد

دس فروری اتوار کا دن مجھ پر کچھ ایسے بھی گراں گزرا کہ صبح صبح گلگت بلتستان کی دو اہم شخصیات کی دنیا سے رخصتی کی خبر سننے کو ملی ،وزیر اعلی کے معاون خصوصی محمد سلیم اور ممتاز قانون دان ،دانشور سروس ٹریبول کے چیرمین میر اخلاق صاحب کی موت کی خبر نے مجھے ہی کیا گلگت بلتستان کو سوگوار کر دیا،محمد سلیم کی زندگی کے روشن گوشوں پر گزشتہ کالم میں روشنی ڈال چکا ہوں آج کی نشست میں میر اخلاق ایڈوکیٹ کے حوالے سے اپنی یادیں اور جذبات رقم کرنا چاہتا ہوں ۔

یہ آج سے تقریبا بیس برس پیشتر کی بات ہے جب میں ابھی ابھی یہ جاننے کی تگ دو کر رہا تھا کہ گلگت بلتستان کا آئینی اور سیاسی مستقبل کیا ہے اور تاریخ کیا ہے ،مجھے بہت کم شخصیات ایسی ملیں جو میری تشنگی علم کو بجھانے کے لئے مجھ سے گفتگو کرتیں ہوں۔ ان میں سے ایک میر اخلاق ایڈوکیٹ تھے ،یہ وہ دور تھا جب وہ عدالتی و قانونی محازوں پر بھی اپنا لوہا منوا چکے تھے اور سیاسی حوالوں سے بھی ایک حوالہ تھے ،ایسا حوالہ کہ جو گلگت بلتستان کی سیاسی ،آئینی ،سماجی اور ثقافتی تاریخ سے آگاہی رکھتے تھے ،ہم جیسے طالب علموں کے لئے یہ بات باعث سعادت تھی کہ ہمیں میر اخلاق جیسی علمی شخصیات سے کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا ،گلگت میں پارک ہوٹل لنک روڑ بر لب سڑک ان کی رہائش گاہ تو دوسری طرف دفتر تھا ،اکثر شام کے اوقات میں ڈرتے ڈرتے ان کے دفتر میں داخل ہوتا تھا کہ کہیں ان کی مصروفیات میں خلل اور میری آمد ان پر گراں نہ گزرے لیکن وہ تو اسم بامسمی جو ٹھہرے ،مسکراتے چہرے کے ساتھ آنے والے کا استقبال کرتے تھے،جیسے بھی حالات ہوں ،جتنے بھی کام میں مصروف ہوں لیکن میر اخلاق اخلاق کا پیکر بن کر
مسکراہٹوں کے تحفے بکھیرتے تھے۔

میر اخلاق کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہوں نے گلگت میں اس وقت سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا جب لوگ مسلکی لبادوں سے باہر آکر سیاست کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ،انہوں نے انتخابی سیاست میں حصہ تو نہیں لیا لیکن بڑے بڑے سیاسی چغادریوں کو انتخابی سیاست کے رموزسے آگاہی دیتے تھے ،گلگت بلتستان کے سیاسی و آئینی مقدمے کو میر اخلاق سے زیادہ بہتر کوئی اس لئے بھی نہیں جانتا تھا کہ جتنا مطالعہ گلگت بلتستان کی تاریخ ،سیاست اور آئینی مسلے پر ان کا تھا اتنے مطالعے والی شخصیت سے میرا واسطہ نہیں پڑا ،میری ان سے طویل ملاقاتوں سے مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری نہیں آئی کہ ان کے پاس گلگت بلتستان کے سیاسی و آئینی مقدمے کے ہر پہلو کے حوالے سے مکمل معلومات تھیں یہی وجہ ہے کہ سیاسی و قانونی محاز کے شہسوار ہونے کے ناتے کھبی انہوں نے سیاسی لوگوں کی طرح نہ تو کوئی ہوائی اخباری بیان دیا اور نہ ہی اپنے تقریروں میں کوئی ایسی بات کہی کہ جس کے بعد کوئی یہ کہے کہ زمینی حقائق سے متصادم ان کی سوچ ہے ،میر اخلاق کی شخصیت کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ روایتی سیاست کی منافقت سے کوسوں دور تھے ،منافقت ان کے قریب سے بھی گزر نہیں سکتی تھی ،صاف گو قول و فعل کے تضاد سے مبرا انسان تھے،میں جب بھی ان کے دفتر جاتا ایک چیز کا میں نے شدت سے ادراک کیا کہ وکلا کے رویوں سے ہٹ کر کوشش کرتے تھے لوگوں کے جھگڑوں اور تنازعوں کی عدالت سے باہر صلح کرائی جائے ،سائلین ان کے پاس بھاری فیس کے ساتھ اپنا مقدمہ عدالت میں دائر کرنے کیلئے آتے تھے لیکن وہ عجیب وکیل تھے کہ پیسوں اور بھاری فیس سے ہاتھ دھو کر عدالت سے باہر صلح کے لئے کوششیں کرتے تھے ،حاصل کلام یہ کہ میر اخلاق مرحوم کا اللہ نے امتیازی صفات سے نوازا تھا تو اس لئے تو ان کا انجام بھی ایسا ہوا کہ جس کی تمنا ہر صاحب ایمان کرتا ہے کہ جب موت آئے تو گناہوں سے پاک ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوں ۔

میر اخلاق کتنے خوش قسمت تھے جو عمرے کی ادائیگی کے بیت اللہ گئے اللہ کے گھر میں اپنی بخشش کے لئے گڑگڑا ئے اور اللہ کے گھر سے اپنے گھر پہنچنے سے قبل ہی سفر میں اللہ کے پاس حاضری دی ،ہم کہہ سکتے ہیں کہ میر اخلاق نے جب رب کے حضور حاضری دی تو وہ اللہ کے گھر میں رو رو کر اپنے گناہوں کی بخشش کرا کرپاک ہوچکے تھے ،میرے نزدیک یہ بڑی بات نہیں کہ میر اخلاق سروس ٹربیول کے چیر مین کے بڑے عہدے پر فائز تھے بلکہ بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے نام کی طرح پیار محبت و اخلاق کے مجسم تھے ،ان کی رحلت سے گلگت بلتستان ایک قابل سیاستدان ،ماہر قانون دان ،دانشور اور ایک اچھے انسان سے محروم ہوا ہے ،اللہ میر اخلاق کی قبر پر نور کی برسات اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button