کالمز

جامعہ قراقرم دریچہ علم و تحقیق (قسط 2)

از قلم: پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ،
شیخ الجامعہ، جامعہ قراقرم

پہلی قسط میں ایک جامعہ یا اعلیٰ تعلیمی ادارے کے کسی معاشرے میں عمومی کردار کی تشریح پرقلم آزمائی کی تھی۔ اس قسط میں ’’جامعہ قراقرم‘‘ کے حوالے سے اس کے خصوصی کردار، درپیش مسائل و چیلنجز اور ان کا ممکنہ حل کے حوالے سے تحریر کا قصد کیا ہے۔ اس ضمن میں شیخ الجامعہ کی ترجیحات کا اجمالی جائزہ حاضر خدمت ہے۔ کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے کیلئے کوالٹی یا معیارکا ہونا اس کے وجود کی ضامن ہے۔ چنانچہ اعلیٰ تعلیم و تربیت کے بغیر کسی تعلیمی ادارے کا قیام و بقا ناممکن ہے۔

بحیثیت وائس چانسلرراقم کی پہلی اور اولین ترجیح یقیناًیونیورسٹی کے اندر تمام تعلیم و تدریس کے عمل اور متعلقہ امور کے اندر ایک واضح معیارلانا مقصود ہے۔ تحصیل علم محض کاغذ کے ایک ٹکڑے یعنی ڈگری کے حصول کا نام نہیں بلکہ اس سے وابستہ ان تمام درکار علم و ہنر اور انسانی رویوں کا نام بھی ہے جو اس ڈگری سے وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ڈگری کے حصول کے ساتھ معاشرے کے توقعات بھی وابستہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سول انجینئر نگ کے فارغ التحصیل طالب علم سے سول انجینئرنگ کی بنیادی علوم، ہنر اور اس شعبہ سے وابستہ اہم مسائل کے حل سے متعلق آگاہی اور ادراک کاتوقع رکھنا ایک فطری تقاضا ہے۔

انسان کی شخصیت کے عمومی طور پر تین پہلو ہیں۔ علم، ہنراور رویے (اقدار)۔ کسی بھی کامیاب انسان کیلئے ان تینوں لازمی عناصر میں کامیابی درکار ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک طلائی تمغے کے حصول کے باوجود ایک طالب علم بات کرنے اور ٹیم ورک کی بنیادی صلاحیتوں سے عاری ہے تو عملی زندگی میں اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ٹوٹل کوالٹی مینجمنٹ (انصرام کلی معیار) بنیادی طور پر معیار یعنی کوالٹی کو تمام امور کے اندر تفویض کرنے کا عمل ہے۔

جامعات کی عالمی درجہ بندی کے حوالے سے دنیا میں مختلف نظام کار فرما ہیں۔ جن میں اکیڈیمک رینکنگ آف ورلڈ یونیورسٹی (ARWU) جس کو شنگھائی رینکنگ بھی کہا جا تا ہے، QSورلڈ یونیورسٹی رینکنگ اور U۔Multi Rankخصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ جامعات کی اس عالمی درجہ بندی میں معیاری تعلیم، تحقیق، ادارے کی بین الاقوامی ساکھ اور فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی عالمی منڈی میں علمی، تحقیقی اور کاروباری کردار وغیرہ پر منحصر ہوتی ہے۔ پاکستان میں ملکی سطح پر بھی جامعات کی قومی درجہ بندی کا سلسلہ رائج تھا لیکن کم و بیش 2سال قبل HECکی جانب سے اس کو موخر کر دیا گیا۔ جس کی بنیادی وجہ HECکے ارباب اختیار سے ہی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس نظام کے اندر کچھ خامیاں ضرور تھیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ جامعات کے معیار کی خود پیمائی اور مسلسل بہتری کیلئے ایک مناسب نظام ضرور تھا۔ بد قسمتی سے اس کو مزید بہتر بنانے کی بجائے اس کو اچانک معدوم کیا گیا۔ اس قومی رینکنگ نظام کا دارومدار بھی معیار تعلیم، تحقیق اور یونیورسٹی کے گورننس پہ تھا۔ اس کے ساتھ HECکے زیر نگرانی کوالٹی ایشورنس ایجنسی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ جس کی مدد سے کم و بیش تمام جامعات میں QECکوالٹی انہاسمنٹ سیل قائم کئے گئے۔ جن کے ذریعے جامعات میں تعلیم و تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی۔ QAAاور QECنے کوالٹی اور ریسرچ کے ضمن میں قابل قدر خدمات بھی انجام دیں۔ تاہم HECکیلئے ایک ریگولیٹری باڈی کی حیثیت سے جامعات میں مائیکرو لیول پر معیار کو بہتر بنانا ہرگز ممکن نہیں کیونکہ اس وقت وطن عزیز میں تقریباً 200جامعات ظہور پذیر ہوچکی ہیں اور اگر اوسطاً فی یونیورسٹی 100پروگرام پیش کریں تو کم وبیش 20ہزار پروگرامز بن جاتے ہیں۔ چنانچہ HECکیلئے ان تمام پروگرامز کی جانچ پڑتال کرانا ہرگز ممکن نہیں۔ بلکہ یہ شاید ان جامعات کی خود مختاری کے بھی خلاف ہے۔ اس ضمن میں HECنے بنیادی قوائد و ضوابط، نصاب مقرر کرنے کے ساتھ کم وبیش 15ادارے ایسے تشکیل دیئے ہیں جو ان پروگرامز کی باقاعدہ ریویو کراکے ان کی درجہ بندی یا منظوری دیتے ہیں۔ جن میں پاکستان انجینئرنگ کونسل، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، پاکستان فارمیسی کونسل، کمپیوٹر ایجوکیشن کونسل، آرکیٹکچر اینڈ ٹاؤن پلاننگ کونسل، بزنس کونسل، ٹیچر ایجوکیشن کونسل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام کونسلز عمومی طور پر جامعات کے اندر انڈر گریجویٹ (BS) پروگرامز کو معیاری بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کونسلز میں ماہرین نصاب، ٹیچنگ فیکلٹی،سہولیات، بجٹ، تحقیقاتی اور ہم نصابی سرگرمیاں، ریسرچ مقالہ جات و کتب کی اشاعت، لائبریری اور لیبارٹریز وغیرہ کی بنیاد پر پروگرامز کی منظوری دیتے ہیں۔ جن کو عمومی طور پر ایکریڈٹیشن کیا جا تا ہے۔ ان تمام کاوشوں کے باوجود جامعات میں جدید معیاری تعلیم و تحقیق کیلئے مطلوبہ معیار کا حصول ایک صبر آزما امر رہا۔

گریجویٹ پروگرامز (ایم فل /ایم ایس یا پی ایچ ڈی) کے حوالے سے 2014/2013میں HECکی جانب سے باقاعدہ NOCکے حصول کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے تحت ہر پروگرام کے لئے درکار PhDفیکلٹی کی موجودگی، داخلے کے ٹیسٹ کا طریقہ کار، ریسرچ، طلبہ و طالبات کیلئے درکار وسائل وغیرہ کا جائزہ لینے کے بعد NOCکااجراء کیا جاتا ہے۔ جو یقیناًایک خوش آئند امر ہے۔ ان اصولوں کی بنیا د پر HECنے مختلف جامعات میں کم و بیش ایک ہزار ایم ایس، پی ایچ ڈی پروگرامزبھی بند کرائے جہاں مطلوبہ سہولیات موجود نہیں تھیں۔ اس سے ہزاروں طلبہ وطالبات کے وقت اورو سائل کا ضیاع بھی ہوگیا تاہم اس میں HECکے ساتھ ان جامعات کی غیر معیاریت کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

معیاری تعلیم و تدریس کا حصول محض HECکی کاوشوں سے ہر گز ممکن نہیں بلکہ اس کیلئے ایک اندرونی مربوط نظام برائے اصلاح معیار (Integrated Quality Improvement System) کی ہمیشہ سے ضرورت ہے۔ اس ضمن میں کوالٹی انہاسمنٹ سیل کا تمام جامعات میں قیام یقیناًایک احسن قدم ہے۔ KIUمیں کوالٹی تعلیم و تدریس کیلئے ایک مضبوط اور مربوط QECکا قیام ناگزیر ہے۔ چنانچہ ان اہداف کے حصول کیلئے QECکی تنظیم نو اور تقویت شیخ الجامعہ کی حیثیت سے میری اولین ترجیح ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اہم امور کے ذریعے تعلیم و تدریس کے معیارکو بلند کیا جائے گا۔

۱) معیار یعنی کوالٹی کو یونیورسٹی کلچر کا لازمی جزو بنایا جائے گا جس کیلئے ضروری ہے کہ فیکلٹی اور سٹاف کو زیادہ سے زیادہ تربیت دی جائے اس کیلئے فیکلٹی اینڈ سٹاف ڈیویلپمنٹ سنٹر کو از سر نو ترتیب دیا گیا ہے اور تمام فیکلٹی سٹاف کیلئے لازمی کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں ہونے والی تربیتی کورسز میں باقاعدہ شمولیت اختیار کریں۔ اس ضمن میں تمام فیکلٹی اور سٹاف کیلئے ایک تربیتی کیلنڈر بھی مرتب کر دیا گیا ہے تاکہ تمام سٹاف یونیورسٹی کے اندر اور ملکی / بین الاقوامی سطح پر میسر ماہرین سے استفادہ کر سکے۔ حقیقی معنوں میں KIUکے اندر سیکھنے اور سکھانے کا ایک ایسا ماحول پیدا کرنا مقصود ہے جو یونیورسٹی کے اندر تمام طلبہ و طالبات، فیکلٹی اور سٹاف کو اپنی استعداد بڑھانے کی طرف مائل کریں۔

۲) دوسرا اہم کام اس ضمن میں کوالٹی ایشورنس کیلئے بنیادی نظام کا وضع کر نا ہے۔ جس کے ذریعے مختلف تعلیمی و تدریسی عوامل کا تقابلی جائزہ لیا جاسکے اور نہ صرف یہ کہ غیر معیاری اجزاء کا روک تھام کیا جا سکے بلکہ فوری طور پر تصحیح کرانے کیلئے اقدامات اٹھائے جاسکے اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے تو کوالٹی اور معیار کے بنیادی اصول اور معیاری نظام کی بنیاد ڈالی جائے اور اس کے بعد ان بنیادی اصولوں پر کار بند رہنے کیلئے معیار کی ضمانت دی جاسکے جس کو بسا اوقات ’’کوالٹی ایشورنس‘‘ کا نام بھی دیا جا ہے اور جہاں ضروری ہو اس عمل کو مزید بہتر بنایا جائے جس کو کوالٹی کنٹرول بھی کیا جاتا ہے۔ ان تمام امور کیلئے مسلسل بہتری معیار (Continuous Quality Improvement)یعنی(CQI) کی ضرورت ہے۔ کیونکہ معیارکا حصول کسی منزل کانام نہیں بلکہ حقیقتاً یہ عظمت و بلندی کی طرف ایک مسلسل اور صبر آزما سفر ہے۔جس کے لئے مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

۳) طلبہ و طالبات کی استعداد و صلاحیت بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کی مشاورت کے عمل کو بھی مستحکم کیا جائے۔ اس ضمن میں مربوط نظامِ مشاورت برائے طلبہ (Integrated Students Counselling System)یعنی ISCSکا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے۔ جس کے ذریعے طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں اور نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں اور پیشرفت کا مسلسل جائزہ لیا جائے گااور طلبہ کی مشاورت کے مرکز کے ذریعے آن لائن ریویو سسٹم کا اجراء کیا جائے گا۔ اس نظام کو آئی ٹی اور ایم آئی ایس کے ذریعے طلبہ کے پراگریس کے ساتھ مربوط کیا جائے گا تاکہ ان کی تعلیمی و تدریسی پراگریس کا بروقت جائزہ لیتے ہوئے ان کیلئے درکار مشاورت اور تعلیم و تدریس کاانتظام کیا جائے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے طلبہ و طالبات کے والدین اور دیگر متعلقہ اہل خانہ کو اس نظام کے ساتھ مربوط کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تدریس اور ان کی ذہنی و اخلاقی بالیدگی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ (جاری ہے)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button