موسمیاتی تبدیلی
گزشتہ دنوں امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹوئیٹر پر اپنے ایک ٹویئٹ میں دعوی کیا کہ امریکہ میں اس سال شدید سردی اس بات کا ثبوت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی Climate Change کا کوئی وجود ہے ہی نہیں اور انھوں نے موسمیاتی تبدیلی کو ‘واپس لوٹنے کی دعوت’ دی۔
دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سربراہ سے ایسی باتوں کی امید رکھنا تو دور بات ہے کوئی زی شعور سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ بد قسمتی سے دنیا کے سپر پاور کا سربراہ یعنی ڈونالڈ ٹرمپ ان لوگوں میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے وجود سے انکاری ہیں۔
ٹرمپ نے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے وجود کو ماننے سے صاف انکار کیا ہے بلکہ وہ اس معاملے میں بحیثیت امریکہ کے صدر کے کچھ ایسے فیصلے بھی کر چکے ہیں جو کہ دنیا کے لیے نقصاندہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت افسوس ناک بھی ہیں۔ انھوں نے 2014 میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے دنیا کے مختلف ممالک کے بیج ہوئے معاہدہ پیرس کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور 2020 تک امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہی نہیں انھوں نے کوئلے سے چلنے والی فیکٹریوں کو پھر سے چالو کرنے کا بھی کہا ہے جو کہ بہت افسوسناک ہے۔
معاہدہ پیرس اقوام متحیدہ کے ممبر ممالک کے بیج موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا ایک عزم ہے جس کی تحت گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو روکنے کی کوشش کی جائیگی۔ اس معاہدے پر باقاعدہ دستخط 12 دسمبر 2015 میں دنیا کے195 ممالک نے کیااور 184 ممالک نے اس پر باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔ ا س معاہدے کے تحت زمین کی سطح پر درجہ حرارت کو 2ڈگری سلسیئس سے کم کرنے کی کوشش کی جائیگی۔
ٹرمپ بظاہر موسمیاتی تبدیلی Climate Change اور موسمweather میں فرق کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ جان بوجھ کر موسمیاتی تبدیلی کو نظر انداز کررہے ہیں۔ تاہم اس ٹویئٹ کا ایک فائدہ موسمیاتی تبدیلی پر دوبارہ بحث کی شکل میں سامنے ایا ہے۔ اور میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے یہاں کتنے لوگ موسمیاتی تبدیلی اور عام موسم میں فرق کرتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں موسمیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینچ دراصل زمین کی سطح پر سالوں پر محیط درجہ حرارت میں مجموعی تبدیلی کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ ہم اپنے بزرگوں سے سنتے ہیں کہ چالیس پچاس سال پہلے ہمارے ہاں سردیوں میں بہت برف پڑتی تھی اور سخت سردی ہوتی تھی تاہم آجکل ہم دیکھ رہے ہیں کہ اتنی برف نہیں پڑتی اور مجموعی طور پر سردی بھی اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ جبکہ موسم weather دراصل اب و ہوا کی عام کیفیت کا نام ہے یہ چند منٹوں سے لیکر گھنٹوں یا دنوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اج صبح موسم ابر آلود ہے جبکہ دوپہر تک دھوپ نکلنے کی پیشن گوئی ہے۔
کچھ لوگ شاید اس مغالطے کا شکار ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا وجود ہوتا تو اتنی سردی نہیں پڑتی۔ حالانکہ سردی اور گرمی میں شدت ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ائی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے جہاں سخت اور غیر معمولی گرمی پڑتی ہے وہی غیر معمولی سردی بھی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر اسی سردیوں کے موسم میں زمین کے شمالی حصے یعنی روس یورپ اور شمالی امریکہ بشمول کینیڈا سخت اور غیر معمولی سردی کی لپیٹ میں ہیں
خود ڈونالڈ ٹرمپ کا ملک متحدہ ہائے امریکہ میں درجہ حرارت منفی تریپن ڈگری سلسیئس تک گر چکی ہے۔ جس سے نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی درجنوں انسانی اموات کے علاوہ سینکڑوں جنگلی جانور ہلاک ہوگئے۔ جبکہ عین اسی وقت زمین کے جنوبی حصوں یعنی آسٹریلیا سے لیکر جنوبی امریکہ تک قطب جنوبی میں سخت گرمی پڑی ہے۔ زمین کے ان حصوں میں اتنی گرمی پڑی ہے کہ جنگلی جانور گرمی سے ہلاک ہوگئے سڑکیں پگھل گئیں جھیل خشک ہوگئے۔ لوگوں کا جینا محال ہوا ہے۔
یہ بہت تشویشناک صورتحال ہے۔ ایسے میں دنیا کے سپر پاور کے سربراہ کا موسمیاتی تبدیلی کو نہ ماننا بہت افسوسناک ہے۔ تاہم دنیا کے دوسرے ممالک معاہدہ پیرس کے تحت اپنے اپنے وعدے پورے کررہے ہیں معاہدہ پیرس کے تحت کسی ملک کو کوئی خاص ٹارگٹ نہیں ملا ہے یا کوئی بھی ملک ایک خاص کام کرنے کا پاپند نہیں ہے بلکہ ہر ملک اپنے بساط کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں بروئے کار لایئگا۔ اس سلسلے میں بہت سارے ممالک ابھی سے بہت اچھے اور مثبت اقدامات کرچکے ہیں مثلاً جرمنی کوئلے سے چلنے والے سارے کے سارے پاور پلانٹس اگلے کچھ سالوں میں بند کرنے کا اعلان کرچکا ہے جس سے کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ انڈیا نے آنے والے دو عشروں میں ساری کی ساری گاڑیاں تیل کے بجائے برقی بیٹریوں پر چلانے کے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ 2017میں فرانس نے بھی 2040 تک تیل پر چلنے والی ہر قسم کی گاڑیوں پر پاپندی لگانے کا اعلان کرچکا ہے اور 2022 تک کوئلے سے چلنے والی فیکٹریوں پر بھی پاپندی کا اعلان کردیا ہےان منصوبوں پر کام جاری ہے۔
ناروے نے 2025 تک ڈیزل اور پیٹرول کی فروخت پر پابندی کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ ہالینڈ نے 2030 تک تیل کے کسی بھی قسم کے استعمال پر پابندی کا اعلان کردیا ہے۔ ہالینڈ کی تمام ریلوے سسٹم اس وقت بجلی پر چل رہا ہے۔ چین نے کوئلے سے چلنے والے بجلی کے اکثر کارخانوں کو بند کردیاہے۔ چین2025 تک سالانہ 70 لاکھ برقی گاڑیاں بنانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا کوئلے اور تیل کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی کوشش کررہی ہے پاکستان ابھی کوئلے پر چلنے والی فیکٹریاں بنانے میں مصروف ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے کسی طور بھی صیح نہیں ہے۔ خود پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
اور اب اسی زمرے میں کچھ واقعات کا زکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں؛ گزشتہ ہفتے ہمارے چند بڑے قومی اخبارات میں سے ایک نے موسمیاتی تبدیلی پر ایک اداریہ لکھا۔ اسے پڑھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اسباب واضح طور پر بیان کیا جائے اس کے اپنے ملک پر اثرات پر بحث کیا جائے اور پھر اس سے بچاو کے طریقے بتائے جائے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس اداریے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ ایک واقعے کو بیان کرکے پھر موسمیاتی تبدیلی کا سارا الزام ایک خاص طبقے پر تھوپا گیا تھا۔ بہتر ہی ہوتا کہ اداریہ لکھنے والے نے نام لیکر ہی موسمیاتی تبدیلی کا الزام یہود ہنود پر لگاتا دیتا۔ پتا نہیں لکھنے والے نے کیا سوچ کر لکھا تھا۔
بہر حال مجھے خوشی ہے کہ ہمارے یہاں بھی قومی اور مقامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے شعور بڑھتا جارہا ہے اور لوگ اس حوالے سے اپنی اپنی کوششیں بروئے کار لارہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے گزشتہ دن متحدہ عرب امارات میں ورلڈ گورنمنٹ فورم کے پلیٹ فارم پر بات کی اور پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا زکر کیا۔
دوسری طرف گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری نے پورے جی بی میں اس سال سات ملین درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر چیف سیکریٹری اور ان کی ٹیم نے اس کا آدھا حصہ بھی لگا دیا تو بہت اچھا کام ہوگا۔ اس سلسلے جی بی گورنمنٹ اور چیف سیکریٹری مقامی لوگوں کو انگیچ کرکے اچھا خاصا کام نکلوا سکتے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں کسانوں کو مفت پودے مہیا کرکے اور کہیں کہیں نکاسی اب کا بندوبست کرکے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ بہر حال یہ بہت اچھا قدم ہے اور ہم اس کو سراہتے ہیں۔
میں چترال ہریٹیچ اینڈ انوایئرمنٹل پروٹیکشن سوسائٹی کے چیئرمین رحمت علی جعفر دوست اور چترال بائیکرز کلب کے صدر اکرام اللہ خان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے چترال سے گوادر تک اور پھر گوادر سے کراچی تک ماحول کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے بائک ریلی کا اہتمام کیا۔ پورے ملک خاص کر گلگت بلتستان اور چترال میں ان کی اس کوشش کو خوب سراہا گیا ہے۔ ان کی اس کوشش سے ماحول اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے اگاہی پھیلانے میں بہت زیادہ مدد ملی ہے۔
گزشتہ دنوں بھائی مسرور حسین حیات نے موسمیاتی تبدیلی اور چترال پر اس کے ممکنہ اثرات پر اچھا مضمون لکھا تھا۔ ان کے مطابق جانوروں کی تعداد کم کرکے پودوں کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے۔ اسی سے منسلک ایک بات میں میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ جدید ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کاربن گیسوں خاص کر متھین کا اخراج گاڑیوں اور فیکٹریوں کی نسبت جانوروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بڑے جانور خاص کر جن سے بیف حاصل کیا جاتا ہے وہ دراصل موسمیاتی تبدیلی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں اور ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ہمیں بیف کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔
حال ہی میں امریکی خلائی ادارے نیشنل ایئروناٹیکل اینڈ سپیس ایجنسی یعنی ناساNASAنے ایک تشویشناک انکشاف کیا ہے کہ سال 1880 کے بعد 2018 مسلسل چوتھا گرم ترین سال تھا۔ ناسا نے یہ انکشاف نیشنل اوشیانک اینڈ اٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن یعنی نوا NOAA کے ساتھ ملکر آزادانہ تحقیقات کے بعد کیا ہے۔ ناسا کے گیوِن شمد کے مطابق ‘ 2018 جدید انسانی تاریخ میں مسلسل پانچواں گرم ترین سال تھا”۔ جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق ہمالیہ ہندوکش اور قراقرام رینچ میں موجود ساٹھ فیصد گلیشئیرز کا انے والے چند عشروں میں پگھل کر ختم ہونے کے امکانات ہے۔
یہ پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت تشویشناک مسلۂ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کو قومی مسلۂ ڈکلئیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کو سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی اور مقامی سطح پر اس سلسلے میں اجتماعی اور انفرادی طور پر کوششیں کرنی کی ضرورت ہے۔صرف اسی صورت میں ہم زمین اور اپنی انے والی نسل کو بچا سکتے ہیں ورنہ انے والی نسل ہمیں معاف نہیں کریگی۔